نیکیوں کا موسم بہار اور رجوع الی اللہ

518

رمضان المبارک کا مہینہ وہ مہینہ ہے جسے بحیثیت مجموعی پوری قوم کے لیے نیکی کا موسم قراردیا گیا ہے۔ ساری قوم بیک وقت روزہ رکھتی اور افطار کرتی ہے۔ سب ایک ہی وقت میں تراویح پڑھتے اور دوسری عبادات انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح پوری قوم کے اندر نیکی کرنے کا ایک عام ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس زمانے میں نیکی خوب پھلتی پھولتی ہے۔ چنانچہ رمضان کے دنوں میں آدمی جو نیکی کرتا ہے وہ اکیلے اسی کی نیکی نہیں ہوتی بلکہ بے شمار نیکیاں اس کو مل کر بڑھا رہی ہوتی ہیں۔ چونکہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا فیضان عام ہوتا ہے۔ ایک آدمی جو نفل نماز بھی پڑھے، کسی کے ساتھ بھلائی کا جو کام بھی کرے، جو خیرات بھی کرے اسے ان پر اتنا اجر ملے گا جتنا عام دنوں میں فرض ادا کرنے پر ملتا ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک میں اگر کوئی شخص فرض ادا کرتا ہے،تو اسے اس کا اجر ستر گنا ملے گا۔
گویا رمضان المبارک میں نیکیاں فروغ پاتی ہیں اور شیاطین کی کارفرمائی ر ک جاتی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں آدمی جس قدر روحانی ترقی کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس میں ہر آدمی کی نیکی دوسرے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ عام دنوں میں روزہ رکھ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں کتنی شدت پائی جاتی ہے اور یہ کام رمضان کے مقابلے میں مشکل محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی آدمی بھی روزے میں دوسرے کا مددگار نہیں ہوتا۔ لیکن رمضان المبارک میں یہ کیفیت نہیں ہوتی، کیونکہ پورا معاشرہ ایک حالت میں ہوتا ہے۔ اس طرح ایک آدمی کو لاکھوں آدمیوں کے روزے سے مدد پہنچتی ہے اور ان کے تقویٰ اور نیکوکاری سے تقویت ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں انسان کی روحانی ترقی اور سیرت و کردار کی اصلاح اور تعمیر کے بے شمار مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔
ہم آج اس بگڑے ہوئے ماحول میں بھی دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے مہینے میں گالم گلوچ کر رہا ہوں یا کھا پی رہا ہو یا کوئی خلاف اسلام بات کر رہا ہو تو کہا جاتا ہے کہ بھائی اس رمضان میں یہ کیا حرکت کر رہے ہو؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کو اب تک اس بات کا احساس ہے کہ رمضان کا احترام کیا معنی رکھتا ہے اور اس ماہ میں ہر آ دمی کو اچھائی کی طرف رغبت بہت بھلی لگتی ہے اور بدی سے وہ نفرت کرتا ہے۔
سیدنا محمد عربیؐ نے اپنے خطبات جمعہ میں جو ہدایات فرمائی ہیں ان ہدایات کے مخاطب وہ سچے اہل ایمان ہیں جو نہایت صالح اور متقی تھے اللہ تعالیٰ سے ڈر کر زندگی بسر کرنے والے اور ان کی ہدایات کی پیروی کرنے والے تھے ان سے یہ فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں یعنی جنت اور رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ رمضان کی آمد کے بعد جتنی نیکیاں کرسکتے ہو کرتے چلے جاؤ، جنت کے سب دروازے تمہارے لیے کھلے ہیں۔ اگر صدقہ و خیرات کے دروازے سے جنت میں پہنچ سکتے ہو تو صدقہ و خیرات کے دروازے سے پہنچو اور روزے کے دروازے سے پہنچ سکتے ہو تو روزے کے دروازے سے پہنچو اگر تلاوت قرآن کے راستے سے پہنچ سکتے ہو تو اس راستے سے پہنچو اگر برائیوں سے اجتناب کے ذریعے سے پہنچ سکتے ہو تو پہنچو اور یہ کام رمضان کے مقابلے میں مشکل محسوس ہوتا ہے۔
ماہ رمضان المبارک ایک عظیم ماہ مبارک ہے، یعنی بزرگی والا اور بڑی برکت والا مہینہ۔ رمضان کے بزرگ یا بابرکت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ ہمارے لیے ایسے مواقع پیدا کر دیتا ہے جس کی بدولت ہم اس کی بے حدو حساب برکات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس مہینے میں ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی جتنی زیادہ عبادت کرے گا اور نیکیوں کے جتنے زیادہ کام کرے گا وہ سب اس کے لیے زیادہ سے زیادہ روحانی ترقی کا وسیلہ بنے گی۔ اس لیے اس مہینے کے بابرکت ہونے کا مطلب در حقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر ہمارے لیے برکتیں سمیٹنے کے بے شمار مواقع فراہم کر دیے گئے ہیں کہ ہم جتنی نیکیاں سمیٹنا چاہیں سمیٹ سکتے ہیں۔ یہ اب ہمارا ظرف ہے کہ سمندر کے چند قطرے لیتے ہیں یا پورا کا پورا سمندر۔
رمضان المبارک میں تمام مسلمان بیک وقت روزہ رکھتے ہیں اس لیے بیک وقت روزہ رکھنے سے پوری قوم کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا ایک ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے جو دوسرے دنوں میں نہیں ہوتا۔ اسی لیے رمضان وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اندر رجوع الی اللہ کی ایک مسلسل کیفیت جاری و ساری رہتی ہے کیونکہ جو آدمی بارہ چودہ گھنٹے روزے سے ہوتا ہے اسے گویا ہر وقت یہ یاد ہوتا ہے کہ میں روزے سے ہوں اور میں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے روزہ رکھا ہوا ہے لہٰذا جب اسے پیاس لگے گی تو وہ پانی نہیں پیے گا کیونکہ اسے یاد ہوگا کہ وہ روزے سے ہے جب اسے بھوک لگے گی اور کھانے کی خواہش ہوگی تو یاد ہوگا کہ روزے سے ہے اس لیے کھانے سے مجتنب رہے گا اس طرح رمضان المبارک کے پورے مہینے میں آدمی کا رجوع مسلسل اللہ تعالیٰ کی طرف رہتا ہے۔ وہ پھر جب افطار کرتا ہے تو گویا وہ خود محسوس کرتا ہے کہ یہاں تک تو میرے ربّ نے مجھے باندھ رکھا تھا اب اس نے مجھے اجازت دے دی ہے تو وہ روزہ افطار کر رہا ہوتا ہے اس کے بعد کھانا کھاتا ہے پھر تراویح کے لیے چلا جاتا ہے جس سے پھر رجو ع اللہ کی نوبت آتی ہے اس طرح مسلسل چوبیس گھنٹے اللہ تعالیٰ کی طرف اس کا رجوع رہا۔ اور پھر یہ رجوع ایک آدمی کا نہیں ہوتا ہے بلکہ پوری قوم کا ہوتا ہے۔ گویا ماہ رمضان اس بات کی ٹریننگ کراتا ہے کہ میں بندہ ہوں اللہ تعالیٰ میرا مالک، خالق اور حاکم ہے مجھے اسی کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا ہے وہ جب جس کام کا حکم دے مجھے بغیر کسی چون وچرا کے بجا لانا ہے۔ اور جس طرح رمضان المبارک میں رجوع الی اللہ کی کیفیت ہوتی ہے ہمیں رمضان المبارک کے بعد بھی زندگی کے ہر شعبے میں رجوع الی اللہ کی اس کیفیت کو برقرار رکھنا ہے۔ ان شاء اللہ