اَنا

488

اَنا کے معنی ہیں: ’’خود کو عقلِ کُل سمجھنا، اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنا، اپنی ذات کا اسیر ہونا، اسی کو خود بینی، خود رائی، خود ستائی، خود نِگری، خود نمائی اور کِبر واستکبار‘‘، اس میں مبتلا ہوکر انسان خود کو معیارِ حق سمجھنے لگتا ہے، آنکھوں پر غیرمَرئی (Unseen) پردہ پڑ جاتا ہے اور حقائق سے انکار یا چشم پوشی شِعار بن جاتا ہے۔ یہ نفسانی وصف قبولِ حق اور اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ابلیس کو جب آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا، تو اسی خصلت نے اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ کیا، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اس وقت کو یاد کیجیے: جب آپ کے ربّ نے فرشتوں سے فرمایا: میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں، پس جب اس کی تخلیق مکمل کرلوں اور اپنی طرف سے اُس میں (خاص) روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گر جانا، پس ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، ابلیس نے تکبر کیا اور وہ (علمِ الٰہی میں) کافروں میں سے ہی تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ آدم جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا، ابلیس! تجھے اُس کوسجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا، کیا تو نے (اب) تکبر کیا یا تو پہلے ہی تکبر کرنے والوں میں سے تھا، کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے، فرمایا: جنت سے نکل جا، بے شک تو دھتکارا ہوا ہے اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے‘‘۔ (ص: 71-78) الغرض ابلیس نے فرمانِ باری تعالیٰ کو ردّ کرنے کے لیے عقلی استدلال کا سہارا لیا اور یہ نہ جانا کہ کمال کسی چیز کی ذات میں نہیں ہوتا، کمال تو فیضانِ باری تعالیٰ سے نصیب ہوتا ہے، وہ چاہے تو ذرّے کو آفتاب اور قطرے کو سمندر بنادے، آدم کو مسجودِ ملائک بنادے اور آگ سے تخلیق کردہ ابلیس کو راندۂ درگاہ کردے۔
علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں: ’’ابلیس کی موسیٰؑ سے ملاقات ہوئی تو ابلیس نے کہا: موسیٰ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے رسالت کے لیے چنا ہے اور اپنی ذات سے ہم کلامی کا شرف عطا کیا ہے، میں بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہوں، میں نے اُس کی نافرمانی کی ہے اور اب میں توبہ کرنا چاہتا ہوں، آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میری سفارش کیجیے: ’’وہ میری توبہ قبول فرمائے‘‘، موسیٰؑ نے اُس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو جواب آیا: موسیٰؑ! میں نے تیری حاجت پوری کردی، پھر موسیٰؑ ابلیس سے ملے اور کہا: تجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدمؑ کی قبر کو سجدہ کرلو، تمہاری توبہ قبول ہوجائے گی، اس نے پھر تکبر کیا اور غضب ناک ہوکر کہا: جس کے آگے میں نے ظاہری حیات میں سجدہ نہ کیا تو کیا میں بعد از وفات اس کو سجدہ کرلوں‘‘۔ (تلبیس ابلیس، ص: 29)
انگریزی میں اَنا کو ’’Ego‘‘، اَنانیت کو ’’Egoism‘‘ اور اَنا پرست کو ’’Egocentric‘‘ کہتے ہیں، اناپرستی کی نفسیاتی بیماری قبولِ حق اور اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، قرآنِ کریم نے ابلیس سمیت جن سرکشوں کا ذکر فرمایا ہے، وہ اناپرستی ہی میں مبتلا تھے، ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے باوجود آدمؑ کو سجدہ نہ کرنے کا جواز یہ پیش کیا: ’’تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے‘‘، یعنی اُس کی نظر صرف اپنے جوہرِ تخلیق ’’آگ‘‘ پر مرکوز رہی، اُس نے اللہ تعالیٰ کی حکمت کو نظر انداز کردیا اور کہا: ’’میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے‘‘، اُس نے یہ نہ سوچا کہ کمال نہ ’’شعلۂ نار‘‘ میں ہے اور نہ ’’ذرّۂ خاک‘‘ میں ہے، اللہ کی ذات چاہے تو خاک کے پتلے آدمؑ کو زیورِ علم وہدایت سے آراستہ کر کے مسجودِ ملائک بنادے، شیخ سعدی نے کہا ہے:
تکبر عزازیل را خوار کرد
بزندانِ لعنت گرفتار کرد
ترجمہ: ’’تکبر نے شیطان کو رُسوا کردیا اور وہ ہمیشہ کے لیے لعنت وملامت کا نشانہ بنا‘‘۔ اسی اَنا نے فرعون کو خدائی کا دعویٰ کرنے پر ابھارا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اس نے لوگوں کو جمع کر کے خطاب کیا اور کہا: میں تمہارا سب سے بڑا ربّ ہوں،،۔ (النازعات: 23-24) ایسا ہی دعوائے خدائی نمرود نے بھی کیا تھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’(اے رسولِ مکرّم!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیمؑ کے ساتھ اس کے ربّ کے بارے میں اس بات پر جھگڑا کیا کہ (ابراہیم نے کہا:) اُسے بادشاہت اللہ نے دی ہے‘‘۔ (البقرہ: 258) الغرض وہ بادشاہت کو اللہ کی عطا سمجھ کر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا کہ یہ اس کا ذاتی کمال ہے اور وہ اپنی ذاتی خوبیوں کی بنا پر اس کا استحقاق رکھتا ہے۔ موسیٰؑ کی امت میں یہی شِعار قارون کا تھا، اللہ تعالیٰ نے اُسے بے پناہ دولت سے نوازا تھا، اس کا بیان قرآن کریم میں ہے: ’’بے شک قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا، پھر اُس نے بنی اسرائیل پر سرکشی کی، جبکہ ہم نے اُسے اتنے خزانے دیے جن کی چابیوں کو اٹھانا بھی ایک طاقتور جماعت کے لیے مشکل تھا، جب اُس سے اس کی قوم نے کہا: اترائو نہیں، بے شک اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘، (القصص: 76) ’’اس نے کہا: یہ مال تو مجھے صرف اُس علم کی بنیاد پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے‘‘۔ (القصص: 78) غور کیجیے! نمرود نے دولت کی برتری پر ناز کیا اور دولت عطا کرنے والے ربِّ کریم کے احسان کو فراموش کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی جبلّت کی اس کمزوری اور اَنا پرستی کا ذکر قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ہے، ارشاد ہوا: ’’لیکن جب انسان کو اس کا ربّ عزت اور نعمت دے کر آزمائے تو وہ کہتا ہے: میرے ربّ نے مجھے عزت دی، لیکن جب اللہ تعالیٰ اُسے آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس پر اس کا رزق تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے ربّ نے مجھے ذلیل کردیا‘‘۔ (الفجر: 15-16)
قرآنِ کریم نے کفار کا شِعاریہ بتایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اعزاز واکرام اور نعمتوں کی فراوانی کو وہ اپنا ذاتی کمال اور استحقاق سمجھتے ہیں اور اگر ان پر آزمائش آجائے تو اللہ تعالیٰ سے شکوہ کُناں ہوجاتے ہیں، لیکن قدرت نے یہ بتایا کہ راحتیں اور مال ودولت کی فراوانی کبھی انعام کے طور پر اور کبھی امتحان کے طور پر ہوتی ہے، اسی طرح مصیبتوں کے نزول پر بھی اگر انسان صبر کرے، اللہ تعالیٰ سے شکوہ وشکایت نہ کرے تو یہ اس کے لیے انعام اور بلندیِ درجات کا باعث بن جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اگر ان کو کچھ اچھائی پہنچے تو کہتے ہیں: یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر ان کو کچھ برائی پہنچے تو (اے رسولِ مکرم!) یہ کہتے ہیں: یہ آپ کی طرف سے ہے، آپ کہیے: ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے، تو ان لوگوں کو کیا ہوا کہ یہ کوئی بات سمجھ نہیں پاتے، (اے مخاطَب!) تم کو جو اچھائی پہنچتی ہے، سو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور تم کو جو برائی پہنچتی ہے وہ تمہاری ذات کی وجہ سے ہے اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بناکر بھیجا ہے اور اللہ (بطورِ) گواہ کافی ہے‘‘۔ (النسآء: 78-79)
گوتم بدھ سے کسی نے کہا: ’’مجھے خوشی چاہیے‘‘، وہ بولے: ’’تمہارے فقرے میں دو لفظ اضافی ہیں: ’’مجھے‘‘ اور ’’چاہیے‘‘، یعنی ’’انا‘‘ اور ’’خواہش‘‘ ان دونوں کو نکال دو، بس ’’خوشی‘‘ رہ جائے گی۔ ہماری فہم کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے: ’’اگر انسان اپنی انا کا اسیر نہ ہو اور خواہشات کا بندہ نہ بن جائے، تو اس کی زندگی راحت اور سکون سے گزرے گی، علماء نے کہا ہے: ’’جس نے اپنی خوبیوں اور خامیوں کو پہچان لیا، اس کو مدح وستائش سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا‘‘، (معجم ابن المقری) احمد رضا قادری نے کہا:
نہ مرا نوش ز تحسیں، نہ مرا نیش زطَعن
نہ مرا گوش بمدحے، نہ مرا ہوشِ ذمے
منم وکُنجِ خمولے کہ نہ گنجد دروے
جزمَن و چند کتاب و دوات و قلمے
ترجمہ: ’’نہ کسی کی تحسین سے میرا نفس عُجب میں مبتلا ہوتا ہے اور نہ کسی کے طعن سے مجھے تکلیف ہوتی ہے، نہ میں کسی کی مدح وستائش پر کان دھرتا ہوں اور نہ مجھے کسی کی مذمت پر غور کرنے کی فرصت ہے، بس! میں ہوں اور گمنامی کا ایک گوشۂ عافیت ہے کہ اس میں میرے اور چند کتابوں اور قلم دوات کے سوا کسی اور کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے‘‘۔
عبداللہ بن خُبَیق نے کہا: آدمی تین قسم کے ہیں: ایک وہ جو نیکی کرتا ہے اور اُس پر اللہ سے ثواب کی امید رکھتا ہے، دوسرا وہ جو گناہ کرتا ہے اور پھر توبہ کرلیتا ہے اور توبہ کے سبب اللہ سے مغفرت کی امید رکھتا ہے، تیسرا وہ ہے جو مہا جھوٹا ہے، وہ گناہوں میں حد سے گزر جاتا ہے اور (خوش فہمی میں آکر) کہتا ہے: میں اب بھی اللہ سے مغفرت کی امید رکھتا ہوں اور جو اپنے گناہوں کا احساس کرلے تو اس کا خوف اُس کی امید پر غالب رہتا ہے‘‘۔ (شعب الایمان)
سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: میں نے (رات کو) رسول اللہؐ کو بستر پر نہ پایا تو میں آپؐ کو تلاش کرنے نکلی، (اندھیرے میں) میرا ہاتھ آپ کے پائوں کے تلووں پر پڑا، آپ مسجد میں حالتِ سجدہ میں (تعلیمِ امت کے لیے) یہ دعا فرمارہے تھے: ’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے بچ کر تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری عقوبت سے بچ کر تیرے عفو کی پناہ میں آتا ہوں اور میں تیرے عتاب سے بچ کر تیری رحمت کی پناہ میں آتا ہوں، (اے اللہ!) میں تیری ثنا کا احاطہ نہیں کرسکتا، تیری کمالِ ثنا وہی ہے جو تونے خود اپنی ذات کی فرمائی‘‘۔ (مسلم)
’’ایک شخص نے نبی کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا: ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو، اس کے جوتے اچھے ہوں، کیا یہ بھی تکبر ہے، آپؐ نے فرمایا: (ایسا نہیں ہے) اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر تو لوگوں کو حقیر جاننے اور حق کے انکارکا نام ہے‘‘، (مسلم) ’’متکبرین قیامت کے دن (بشری شکل میں) چیونٹیوں کی مانند اٹھائے جائیں گے، اُن پر ہر طرف سے ذلّت چھائی ہوگی، انہیں بولس نامی جہنم میں لے جایا جائے گا، اُن پر آگ کے ایسے شعلے بلند ہوں گے جو خود آگ کو بھی جلاکر رکھ دیں، انہیں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ اور پسینہ پلایا جائے گا‘‘۔ (ترمذی)