ترجیح کیا ہے

348

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو گرفتار کرنا ترجیح نہیں ہے، فواد چودھری کہتے ہیں عمران خان کو جیل سے نہیں، رانا ثناء اللہ سے ڈر لگتا ہے، شیخ رشید کہتے ہیں، عمران جیل میں ہو یا ریل میں، سنبھالا نہیں جائے گا، عمران خان کہتے ہیں، مجھے گرفتار کرکے شہباز گل اور اعظم سواتی جیسا سلوک کرنا چاہتے ہیں، یہ چار اخباری بیانات ہیں جو ہماری قومی سطح کی سیاسی لیڈر شپ کی جانب سے دیے گئے ہیں، اور اخبارات میں شائع ہوئے ہیں، جن کی تردید بھی نہیں کی گئی، یہ چاروں بیانات ان سیاسی راہنمائوں کے باطن کی کہانی ہے، پاکستان میں بسنے والا سیاسی کارکن کس قدر بے بس اور قسمت کے لحاظ سے کمزور ہے اسے ان جیسے راہنمائوں کے پیچھے چلنا پڑتا ہے یا چلنے پر مجبور ہے، یہ سب راہ نماء قانون، آئین کی عمل داری کا مطالبہ کرتے کرتے بوڑھے ہوچکے ہیں، مگر اپنا حال یہ ہے کہ قانون اور آئین کو کسی نے اپنی حویلی میں بند کر رکھا ہے اور کسی کی ذاتی انا قانون اور آئین سے برتر ہے، دعویٰ پھر بھی یہی ہے کہ آئین پاکستان کا نہایت اہم آرٹیکل 5 مملکت سے وفاداری، آئین اور قانون کی اطاعت سے متعلق ہے اور ہم اسے کے وفادار ہیں، اگر دیکھا جائے تو اس آرٹیکل میں دو شقیں ہیں۔ پہلی شق یہ ہے کہ مملکت سے وفاداری ہر شہری پر لازم اور ہر شہری کا فرض ہے، دوسری شق آئین اور قانون سے متعلق ہے۔ اس شق کے مطابق ہر شہری کی ذمہے داری ہے کہ خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص پر جو فی الوقت پاکستان میں موجود ہو آئین اور قانون کی اطاعت کرے۔ یہ ہر پاکستانی کی واجب التعمیل ذمے داری اور فرض ہے۔ لیکن سب نے دیکھا، دنیا نے دیکھا، ہم نے زمان پارک میں کیا منظر پیش کیا ہے ریاستی رٹ کا ایسا تماشا کبھی نہیں دیکھا، سیاست دانوں کو گرفتار ہوتے دیکھا ہے، بھٹو، گرفتار ہوئے، مولانا مودوی گرفتار ہوئے، میاں طفیل محمد کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس بارے میں اعظم سواتی اور شہباز گل کیا جانیں؟ نواز شریف بیٹی کے ہمراہ گرفتار ہوئے، مریم نواز کو اس کی بیٹی کے سامنے گرفتار کیا گیا، سب نے جیلیں بھگتی ہیں، پیشیاں بھگتی ہیں ایک عمران خان ہی ہیں جنہیں لاڈلہ بنا کر رکھا ہوا ہے، لعنت ہے ہر اس شخص پر جس نے انہیں قانون اور آئین سے بڑا بنا رکھا ہے اور اسے وہ ریلیف بھی ملا جو قانون اور آئین میں کہیں درج نہیں ہے جو زمان پارک میں تماشا اور ریاستی رٹ کا مذاق اڑایا گیا، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔
عمران خان کی انا اور ضد نے تو کمال ہی کر دیا، جب وزیر اعظم تھے تب بھی اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھے اور حکومت سے نکلے تو تب بھی بات چیت، مذاکرات سے انکاری ہیں، اور اب قانون کو چیلنج کردیا ہے، یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ سرپرست وہ ہیں جنہوں نے یہ حدیں پار کر کے سیاسی اطوار ہی بدل کے رکھ دیے ہیں، یہ سارا ریلیف عمران خان کے لیے ہی کیوں؟ پولیس عدالتی حکم کی تعمیل کے لیے گئی وہاں عمران خان سے عدالتی نوٹس وصول کرانا تھا اسی لیے تو پولیس وہاں عدالت میں پیشی کی تاریخ سے چار دن پہلے گئی تھی اور صرف اسلام آبادپولیس کے چند افسر اور اہلکار گئے۔ عمران خان کی عزت کی خاطر اسلام آباد کے ڈی آئی جی بھی ان کے ساتھ گئے تھے، جنہیں حملہ کر کے زخمی کیا گیا اگر گرفتاری مقصود ہوتی تو پھر عمران خان چار پائی کے نیچے چھپ جاتے تب بھی نکال لیے جاتے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ڈرامے کے اختتام پر خود عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے مزاحمتی کارکنوں کو شاباش دی ڈاکٹر یاسمین راشد اور صدر عارف علوی کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت کی آڈیو سامنے آئی یہ گفتگو نہایت اہمیت کی حامل ہے یہ بہت کچھ عیاں کرگئی ہے اس گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ خود کس قدر مایوس اور بے بس ہیں، اب عمران کہتے ہیں کہ لندن پلان بنایا گیا ہے مگر جو جتھے اکٹھے کیے ہیں یہ کہاں کا پلان ہے یہ بھی تو بتائیے۔