کوئی غیر جانبدار نہیں ہے

489

پاکستانی مقتدر قوتیں اپنی پرانی روش پر چلنے پر مصر ہیں اور ملک تباہی کی طرف جارہا ہے۔ ہر حکومت کی طرح موجودہ پی ڈی ایم حکومت بھی وہی کررہی ہے جو سابق حکومتیں کیا کرتی تھیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ خود مختاری کا دعویٰ کرنے والے تمام ہی ادارے کسی اور قوت کے اشارے پر کام کررہے ہیں۔ صرف مقتدر ترین ادارہ تمام معاملات سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ہر معاملے سے تعلق رکھے ہوئے ہے۔ عدلیہ خود مختاری کا دعویٰ کرتی ہے۔ الیکشن کمیشن خود مختاری کا دعویٰ کرتا ہے۔ نیب، ایف آئی اے، پولیس اور دیگر تحقیقاتی اور عسکری ادارے غیر جانبداری اور خود مختاری کے دعوے ضرور کرتے ہیں لیکن اس بارے میں ملک بھر میں کسی بھی شہری سے پوچھ لیں اس کا جواب کیا ہوگا سامنے آجائے گا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں ہر ادارہ اپوزیشن کے لیڈروں کے خلاف مقدمات بنانے، ان کی گرفتاری اور ان کے خلاف فیصلے کے لیے سرگرم تھا۔ اس کو ریاستی جبر قرار دیا جاتا تھا۔ اسحق ڈار کے خلاف کارروائی ہوئی، ان کی جائداد ضبط ہوئی، شہباز شریف کے خلاف کارروائی ہوئی نواز شریف کے خلاف کارروائی ہوئی، دونوں کی اولادوں کے خلاف بھی مقدمات بنے۔ پھر معاملات الٹ گئے۔ عمران خان کی حکومت ختم کردی گئی۔ اس کا سبب ان پانچ چھ میں سے کوئی بھی ہو جو عمران خان بتاتے ہیں لیکن حکومت ختم کرنے کا سارا عمل غیر جمہوری اور غیر سیاسی تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان کو حکومت میں لایا گیا تھا۔ اسی طرح غیر مرئی ہاتھوں نے ان کی حکومت ختم کردی۔ حالات بدلتے ہی ایک دو اداروں کے سربراہ بھی تبدیل ہوگئے لیکن اصل چیز پالیسی تبدیل ہونا ہے۔ یہ پالیسی کی تبدیلی بھی نہیں بلکہ حکومت کی تبدیلی تھی۔ ان اداروں کی پالیسی تو برقرار ہے ان کی پالیسی حکومت کے اشاروں یا غیر مرئی طاقتوں کے حکم پر مقدمات بنانا فیصلے کرنا اور سزائیں سنانا ہے۔ حکومت بدلنے سے حکومت والے اپوزیشن میں اور اپوزیشن والے حکومت میں چلے گئے۔ ان اداروں کی پالیسی وہی رہی۔ جو پہلے تھی یعنی حکومت کی حمایت اور اپوزیشن کی مخالفت۔ عدلیہ اس وقت بھی انصاف کا بول بالا کررہی تھی جس وقت رائو انوار کو ملزم کے بجائے وی آئی پی بنا کر عدالت میں بلوایا گیا، یہ عمران خان ہی کا دور تھا، لیکن انہیں آج ہونے والی کارروائی انسانی حقوق کی خلاف ورزی لگ رہی ہیں حالانکہ وہ بھی وی آئی پی ملزم ہیں جب ان کے دور میں سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ساہیوال میں بچوں کے سامنے باپ کو قتل کیا تھا اس وقت ہمارے یہ ادارے انصاف کا بول بالا کررہے تھے۔ چنانچہ رائو انوار کو بھی ریلیف ملا اور سی ٹی ڈی اہلکار بھی بچ گئے۔ اب حکومت بدل گئی ہے اس لیے جو کارروائی ہورہی ہے وہ اپوزیشن کے خلاف ہورہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب عمران خان حکومت میں نہیں اپوزیشن میں ہیں اس لیے انہیں ہرچیز انسانی حقوق کی خلاف ورزی لگ رہی ہے۔ شاید رائو انوار آپریشن میں مارے جانے والے چار سو لوگ اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ہاتھوں مرنے والے انسان ہی نہیں تھے۔ انسان تو صرف زمان پارک رائے ونڈ بلاول ہائوس اور بنی گالا میں رہتے ہیں۔ اب برسلز میں ہونے والے مظاہرے میں پی ٹی آئی چیئرمین ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف عالمی اداروں کو مداخلت کے لیے مواد دے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح سے انسانی حقوق کی پامالی پاکستان میں ہورہی ہے میری زندگی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کوئی ذی ہوش آدمی بھی ایسی باتیں نہیں کرے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف لگے ہوئے عالمی ادارے پھر اس کے پیچھے لگ جائیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پہلے ہی نشانے پر ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط روز بدل رہی ہیں، دوست ممالک بھی قرض دینے کو تیار نہیں اور حکومت اور اپوزیشن دونوں صرف ایک دوسرے کی ٹانگ گھسیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ عمران خان اس وقت زندہ تھے جب وہ ایوون ریڈلی کے ساتھ بیٹھ کر پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا اور ان کے ساتھ اس کے بعد سے ہونے والے مسلسل ظلم کا ذکر کررہے تھے۔ پھر کہتے تھے کہ میں حکومت میں آیا تو اپنی بیٹی کو وطن واپس لائوں گا۔ لیکن اقتدار آیا اور چلا گیا قوم کی بیٹی نہیں آئی۔ عمران خان اس وقت تک بھی زندہ تھے جب وہ جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کررہے تھے۔ عمران خان اس وقت بھی زندہ تھے جب وہ نواز شریف اور شہباز شریف کو چور ڈاکو کہتے اور پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ جب وہ ان حکمرانوں کی مہنگائی کے خلاف ریلیاں نکالنے اور ملک میں ہر ایک کے لیے ایک قانون کا مطالبہ کرتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ مقتدر قوتوں کے اشارے پر عدالتیں، میڈیا اور سارے کل پرزے حرکت میں آگئے اور نواز شریف کا اقتدار ختم ہوگیا۔ نئے انتخابات میں پی ٹی آئی کو جب جتوایا جارہا تھا تو اس وقت پی ٹی آئی سربراہ کی ڈیموکریٹک ڈیتھ ہوگئی تھی۔ اس کے بعد سے ان کی زندگی ایوان اقتدار کے وینٹی لیٹر پر تھی۔ تقریباً چار سال کے بعد ان کا وینٹی لیٹر ہٹایا گیا ہے تو انہیں وہی سارے اقدامات انسانی حقوق کی خلاف ورزی لگ رہے ہیں جو ان کے لیے کیے گئے تھے۔ عدلیہ کے سامنے عمران خان کی پیشی ایسا سنگین مسئلہ ہے کہ اس کے لیے عمران خان کی رہائش زمان پارک اور اردگرد کا علاقہ آنسو گیس اور فائرنگ کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ جو عدالت عام ملزم کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے زبردستی گرفتار کروا کر طلب کرتی ہے وہ ہر طرح کی رعایتیں عمران خان کو دے رہی ہے۔ یہی ایک ملک میں دو قانون کی زندہ مثال ہے۔ عمران خان دوبارہ اپوزیشن بن گئے ہیں ان کی زندگی لوٹ آئی ہے لیکن عزائم اب بھی وہی ہیں کہ ہم آئے تو وہی کریں گے جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے اور انہوں نے پونے چار سال یہی کیا تو ہے۔ پاکستانی حکمراں، اپوزیشن اور مقتدر قوتوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق بنایا ہوا ہے۔ ممالک عوام کی فلاح کے منصوبے بناتے ہیں قومی مفاد دیکھتے ہیں قومی وقار میں اضافہ کرتے ہیں لیکن یہ سب مل کر پاکستان کو بدنام کررہے ہیں۔ یہ کھیل کھیلنے والوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ملک ہے تو ان کا اختیار اور اقتدار ہے۔ ملک نہ رہا تو سب سے پہلے وہی لپیٹ میں آئیں گے۔ چاروں طرف نظریں اٹھائیں قذافی، حسنی مبارک، صدام حسین کس کو چھوڑا گیا۔