لندن سکرٹریٹ کی رقم کراچی کے عوام کا حق

402

برطانیہ کی عدالت نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے لندن سیکرٹریٹ پر دعوے کو مسترد کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کو اس رقم کا حقدار قرار دیا ہے۔ برطانوی عدالت ننھے بچوں پر مشتمل نہیں ہے کہ اسے پتا ہی نہ ہو کہ یہ رقم جس پر دونوں کا دعویٰ تھا کہاں سے آئی اور کیسے لندن پہنچی تھی۔ کراچی اور حیدر آباد میں لوگوں سے بھتے وصول کیے جاتے، اغوا برائے تاوان کے کیسز ہوتے اور بلڈنگ کنٹرول، رجسٹرار آفس، فیکٹریوں سے ر قم وصول کرکے لندن بھیجی جاتی تھی۔ اس رقم کا حقدار ایم کیو ایم لندن یا ایم کیو ایم پاکستان کو کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ رقم تو اس کی ہے جس سے چھینی گئی تھی۔ اہل کراچی کو یہ رقم لوٹائی جانی چاہیے اور اس کا سیدھا طریقہ یہی ہے کہ ایک منصفانہ انتخاب کے بعد کراچی میں حقیقی عوامی نمائندوں پر مشتمل بلدیہ قائم کی جائے اور یہ لوٹی ہوئی رقم اہل کراچی کے نمائندوں کے حوالے کی جائے۔ جس سے وہ شہر میں فلاحی کام کرائیں۔ بیروزگاری الائونس جاری کریں، متاثرہ لوگوں کو اس رقم سے ادارے بنا کر ملازمتیں دیں اور شہر کو ترقی دیں۔ یہ رقم سیاسی پارٹی یا دہشت گردوں کی نہیں ہے ان میں سے بیشتر رقم زبردستی لی گئی تھی تو اس پر کسی پارٹی کا حق کیسے ہوسکتاہے۔ پاکستانی حکومت لندن عدالت میں پیش ہو یا بلدیہ کراچی کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار حوالے کرے وہ اپنا کیس خود برطانوی عدالت میں لے جائیں گے۔ لیکن قوم کے پیسوں کی یہ بندربانٹ نہیں چلے گی۔ انگریز نے ہندوستان مسلمانوں سے چھینا اور ہندو کے حوالے کر گیا یہی فیصلہ برطانوی عدالت نے کیا ہے قوم سے چھینی گئی رقم چھیننے والوں ہی کو دے دی۔