ذہنی دیوالیے

625

ملک دیوالیہ ہو جائے تو قوم نہیں مرتی۔ قوم ذہنی طور پر دیوالیہ ہو جائے تو مر جاتی ہے اور ملک جغرافیائی وینٹی لیٹر پر سانسیں لیتا رہتا ہے۔ جاپان وغیرہ دیوالیے ہوئے تو قوم زندہ تھی جس نے ملک کو بھی زندہ رکھا۔ فی زمانہ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے چرچے ہو رہے ہیں۔ مگر قوم زندہ ہے سو، سری لنکا بھی زندہ رہے گا۔ ہمارا ملک دیوالیہ نہیں ہوا ہے مگر قوم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے۔
ہم ۱۹۸۲ء سے سائیکل کے علاوہ کوئی سواری استعمال نہیں کرتے۔ ۱۹۷۱ء میں زخمی ہونے کے باعث بائیں ٹانگ کا آپریشن ہوا تھا۔ قسمت کی خرابی کہیے یا سرجن کی غفلت، تھائی مسل ڈیمج ہو گیا۔ ٹانگ کو متحرک اور فعال رکھنے کے لیے سائیکلنگ کی ہدایت کی گئی سو اب تک سائیکل چلا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں کسی کام سے شہر جارہے تھے کہ ایک کار سوار نے ٹکر مار دی۔ ٹکر اتنی زور دار تھی کہ ہم سائیکل سمیت چھے فٹ دور جا گرے اور بے ہوش ہو گئے۔ ہوش آیا تو تماش بینوں کا ہجوم دیکھا۔ سب ہی تماشا دیکھ رہے تھے۔ کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ کار کو روکتا یا کار کا نمبر نوٹ کر لیتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر ہمیں سخت افسوس ہوا۔ ہم نے کہا کہ شاید آپ لوگ ہمیں زندہ سلامت دیکھ کر مجسم حیرت بن گئے ہیں، سوچ رہے ہیں کہ بابا کتنا سخت جان ہے۔ ابھی تک سانسیں لے رہا ہے۔ اسی اثناء میں ہمارے کئی واقف کار بھی آگئے۔ انہوں نے چادر پھیلا کر ہمیں اس میں لٹایا اور کہا کہ کار والے کو گولی مارو، آرام سے لیٹے رہو۔ 1122 کو فون کر دیا گیا ہے۔ ان کے معائنے اور علاج کے بعد ہی فیصلہ کریں گے کہ کار والے کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ کار کا اسکرین چکنا چور ہو چکا ہے کہیں نہیں جا سکتا، پکڑ لیں گے۔ 1122 والوں نے آ کر اچھی طرح معائنہ کیا۔ انجکشن لگایا اور کہا کہ بابا جی فکر کی کوئی بات نہیں، چوٹ کی وجہ سے جسم عارضی طور پر مفلوج ہو گیا ہے۔ دس پندرہ دن بیڈریسٹ کرو گے تو ٹھیک ہو جاؤ گے۔ اللہ کا شکر ادا کرو کہ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی۔ کمر میں شدید چوٹ آئی ہے مگر ریڑھ کی ہڈی بچ گئی ہے۔
ہم تیس چالیس سال سے کالم نگاری کر رہے ہیں اور وطن عزیز کے تمام تر مسائل و مصائب کا ذمے دار مقتدر طبقات کی بے حسی اور کرپشن کو قرار دیتے ہیں۔ مگر آج یہ احساس ہوا کہ من حیث القوم ہم بے حس اور کرپٹ ہیں۔ کار ڈرائیور کی ذمے داری تھی کہ ہمیں اسپتال لے کر جاتا۔ مگر اس نے اپنی ذمے داری سے رو گردانی کی۔ یا اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ہجوم کا فرض تھا کہ وہ کار ڈرائیور کو روکتا، کار کا نمبر نوٹ کرتا، 1122 اور پولیس کو مطلع کرتا۔ مگر کسی نے بھی اپنی ذمے داری نہیں نبھائی۔ سب ہی تماشائی بنے رہے۔ یہ کیسی بے حسی ہے کہ کار والا ایک شخص کو زخمی کر کے بھاگ جاتا ہے اور زخمی شخص کو تماشا سمجھ لیا جاتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوا جاتا۔ لوگ مدد کرنے کے بجائے اس کے بہتے خون سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہوش بحال ہوا تو گھر والوں کو فون کرنا چاہا۔ جیب میں فون تھا نہ پیسے۔ ہمیں اپنا ایک افسانچہ ’’اوور ٹائم‘‘ یاد آگیا۔ جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ایک شخص پڑوسی کی موت پر تعزیت کرنے کے بجائے اوور ٹائم ملنے کی خوشی مناتا ہے۔ ایک ناقد نے کہا تھا کہ انسان اتنا بے حس نہیں ہو سکتا کہ پڑوسی کی نماز جنازہ میں شرکت کے بجائے متوقع اوور ٹائم کو ترجیح دے۔ دیگر ناقدین نے بہت سی مثالیں دے کر یہ ثابت کر دیا کہ انسان سے زیادہ بے حس اور مطلب پرست کوئی نہیں ہو سکتا۔
1122 نے ہمیں گھر پہنچا دیا اور ہدایت کی کہ تکلیف محسوس ہو تو فون کر دینا، اسپتال لے جائیں گے۔ انجکشن کا اثر ختم ہوا تو جسم میں درد کی اٹھنے والی ٹیسوں نے ٹسوے بہانے پر مجبور کر دیا۔ پرائیویٹ ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ پندرہ دن تک چار پائی سے لگے رہے۔ کمر کے درد میں کافی حد تک کمی آگئی مگر دایاں پاؤں جو بری طرح کچلا گیا تھا وہ نیلا اور متورم ہوتا جا رہا تھا۔ خدا خدا کر کے ورم اور نیلاہٹ میں کمی آئی مگر ابھی تک چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ کار کے مالک اور کار کے ڈرائیور کا پتا چل گیا ہے۔ طبیعت بہتر ہوئی تو ایف آئی آر درج کرانے جائیں گے۔ امید ہے ایف آئی آر درج ہو جائے گی اور چالان بھی عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ مگر ہوگا کچھ بھی نہیں کیونکہ ہمارے نظام عدل میں قانون کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ جج اور جسٹس صاحبان ضمیر کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ آخر یہ ضمیر نامی چیز ہے کیا؟ ضمیر ایک خوش نما، خوش رنگ اور خوش کلام پرندہ ہے۔ جسے توتا کہا جاسکتا ہے۔ ایک اعلیٰ نسل کا توتا جس کی قوت نطق قابل تحسین ہوتی ہے۔ جو سکھایا جائے سیکھ لیتا ہے۔ اسے دعائیہ کلمات سیکھائے جائیں تو انسان دوست بن جاتا ہے اور شیطانی آیات کا ورد کرایا جائے تو شیطانیت کا علم بردار بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ ہمارے نظام عدل کے ساتھ بھی ہے۔ منصف انصاف پسند ہو، خدا ترس ہو تو خدا کی نیابت کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ مگر جب خداوند کی نیابت کے بجائے شیطان کی جانشینی کو ترجیح دے تو قوم جیتے جی مر جاتی ہے اور ملک جغرافیائی وینٹی لیٹر پر سانس لینے لگتا ہے۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فوری انصاف فراہم کرنے کی جو مثال پیش کی ہے دنیا اسے پھٹی پھٹی آنکھ سے دیکھ رہی ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ تین بج کر تریپن منٹ پر ایک شخص کی ضمانت خارج کی جاتی ہے، چار بج کر دس منٹ پر ضمانت کی درخواست دائر کی جاتی ہے، اور چار بج کر تیس منٹ پر ایک شخص کی ضمانت منظور کر لی جاتی ہے۔ مگر جو مقدمات برسوں سے زیر التوا ہیں، عدالتوں کو ان پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔