پاکستان جوہری پروگرام! ہوشیار باش

658

آئی ایم ایف نے اپنے اصل ایجنڈے پر کام شروع کردیا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان کو مقامی سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے معاشی و سیاسی مصنوعی بحران میں رکھنا پورے کھیل کاحصہ ہے، کچھ عرصے سے یہ بات سامنے آرہی تھی کہ امریکا کی طرف سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے جوہری میزائل پروگرام کو ترک کرنے کا دیرینہ مطالبہ کیا گیا ہے، اور یہ بات اْس وقت بھی کی گئی تھی کہ جب بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا لیکن اس وقت اس بات کی تردید کی گئی تھی اور دفتر خارجہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ’’ملک کے جوہری پروگرام کو روکنے کا معاملہ ایجنڈے پر ہے نہ ہی اس پر کوئی بات ہوئی ہے‘‘۔ اور ان ہی صفحات پھر لکھا گیا تھا کہ اس طرح کے دوروں کے نتیجے میں تشویش پیدا ہونا فطری عمل ہے کیونکہ واضح ہے کہ امریکا پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرانا چاہتا ہے اور یہ تشویش اْس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہماری حکومت کسی خطرے کی تردید کرتی ہے۔ اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور پہلی بار ہے کہ وزیر خزانہ جوہری میزائلوں کا معاملہ عوامی سطح پر لے کر آئے ہیں۔ اور آئی ایم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ’’کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ اُسے کس رینج کے میزائل یا ایٹمی ہتھیار رکھنے ہیں، ایٹمی اور میزائل پروگرام پرکوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، جیسے ہی آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہوگا ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔ اس سے قبل سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ کے خصوصی اجلاس میں یہ اہم سوال کیا تھا کہ ’’کیا آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجہ جوہری صلاحیت یا چین سے اسٹرٹیجک تعلقات پر کوئی دبائو ہے؟ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اسٹاف ایگریمنٹ میں تاخیر ہورہی ہے اور اس طرح دنیا کی تاریخ میں نہیں ہوا ہے مگر پارلیمنٹ کو معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا جارہا ہے اور یہ اس عالمی ایجنڈے کی وجہ سے ہے جس کا مقصد پاکستان کو اس ایجنڈے میں حصہ لینے پر مجبور کرنا ہے جو پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے اور تاخیر کا مقصد پاکستان پر دبائو ڈالنا ہے کہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات اور ایٹمی پروگرام پر نظر ثانی کرے، نیو ورلڈ آرڈر ہے جو اس خطے میں آرہا ہے مگر اس ایوان میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں لائی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ نے نہ پہلے اور نہ اب پارلیمنٹ کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر اعتماد میں لیا ہے اگر اس پارلیمنٹ کو اندھیرے میں رکھا جائے اور پاکستان کے عوام کو اندھیرے میں رکھا جائے تو کیسے معلوم ہوگا کہ گزشتہ 50سال میں ہمیں کتنا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
سینیٹ کے خصوصی اجلاس جس میں کئی ممالک کے سفیروں نے بھی شرکت کی اسحاق ڈار نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ’’کسی کو یہ بتانے کا حق نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس کتنے میزائل ہیں اور اس کے پاس کون سے ایٹمی ہتھیار ہیں‘‘۔ وفاقی خزانہ اسحاق ڈار نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے’’غیر روایتی‘‘ رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے جوہری میزائلوں کو ترک کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہیں، اس ضمن میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’چند دوست ممالک نے پاکستان کو سپورٹ کرنے کے وعدے کیے تھے، اب آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ وہ ان وعدوں کو مکمل کریں اور صرف یہی تاخیر کی وجہ ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بار آئی ایم ایف پروگرام میں بات چیت بہت غیرمعمولی رہی، بہت زیادہ مطالبات سامنے رکھے گئے، ہم نے ہر چیز مکمل کر لی ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے‘‘۔ اخباری خبر کے مطابق یہ مطالبہ اس وقت شاہین تھری سے متعلق ہے جو پاکستان کا طویل فاصلے تک مار کرنے والا ایٹمی میزائل ہے جو 750۔ 2. کلو میٹر تک جوہری وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا کہ اس کے اندر یہ صلاحیت اور طاقت موجود ہے کہ وہ پورے بھارت اور مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکا اس خطے میں بھارت کی بالادستی چاہتا ہے اور اس خطے میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ امریکا اور بھارت کی مشترکہ پالیسی کا حصہ ہے۔ امریکا نے ہمیشہ پاکستان کی فوجی طاقت کو کمزور اور وسائل محدود کرنے کی کشش کی ہے جبکہ ساتھ ہی بھارت کو فوجی اور اقتصادی امداد بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح امریکا نے جہاں ہمیشہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ بھارت کے جوہری عزائم کی حمایت بھی کی ہے۔ امریکا کئی دہائیوں سے جنوبی ایشیائی خطے میں ایک بڑا کھلاڑی رہا ہے اور پاکستان کے بارے میں اس کی پالیسیاں واضح ہیں۔ اب یہ قیاس آرائیوں کی باتیں نہیں ہیں کہ امریکا پاکستان کی معیشت اور سیاسی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے تاکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کمزور پڑے اور اسی پس منظر میں امریکا نے پاکستان کی بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور منڈیوں تک رسائی کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ ساتھ ہی بھارت کو اقتصادی اور سیاسی مدد فراہم کرتا ہے، امریکا اور بھارت دونوں ممالک اسٹرٹیجک پارٹنر اور اقتصادی اتحادی بن چکے ہیں اور اس نے بھارت کو فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کی ہے اور وہ بھارت کے علاقائی عزائم کی حمایت کرتا رہا ہے اور جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی چاہتا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ امریکا بھارت کی علاقائی بالادستی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کے ایٹمی مزائل سے متعلق خبریں کوئی معمول کی خبریں نہیں ہیں، یہ انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے اور اس کو صرف اور صرف پاکستان کی ریاستی معاملات میں مداخلت قرارد یا جاسکتاہے، گوکہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر نے کہا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے جس کی ریاست غیرت مندی سے حفاظت کرتی ہے۔ پورا پروگرام مکمل طور پر محفوظ، فول پروف، اور کسی بھی قسم کے یا دبائو میں نہیں ہے۔ لیکن قوم کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، پاکستان کا گھیرا تنگ ہوتا جارہاہے، محب وطن سیاسی جماعتوں کو اس ساری صورت حال پر غور کرنا چاہیے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کوئی مربوط حکمت عملی بنائی جائے تاکہ پاکستان کو بچایا جاسکے۔ مشتری ہوشیار باش