تحریک حقوق قبائل کاروان

1161

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی قیادت میں تحریک حقوق قبائل کاروان کا آغاز ہو گیا ہے۔ 5 روزہ تحریک حقوق قبائل کارواں، اورکزئی، شمالی و جنوبی وزیرستان سے ہوتا ہوا خیبر میں اختتام پذیر ہو گا۔ حقوق قبائل تحریک کے چیئرمین اور دیگر قبائلی رہنما کارواں میں شریک ہیں۔ قبائلی علاقوں میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مطالبہ کیا کہ قبائل کے صوبے کے پی کے میں انضمام کے موقع پر جو وعدے کیے گئے تھے ان پر عمل کیا جائے۔ قبائل کے انضمام سے قبل اسے ایف سی آر کے کالے قانون کے تحت چلایا جاتا تھا۔ قبائل سے وعدہ کیا گیا تھا کہ کے پی کے میں انضمام کے بعد اسے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جائے گا لیکن اب قبائل میں یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ قبائلی علاقوں کا صوبہ کے پی کے میں انضمام کا فیصلہ ایسے وقت میں ہوا تھا جب فوجی آپریشن کی وجہ سے قبائل اپنے اپنے گھروں سے بے دخل تھے۔ وہ بے سروسامانی کے عالم میں دربدر ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ ایک طرف امریکا اور عالمی طاقتوں کی افغانستان میں فوج کشی اور دہشت گردی کے خاتمے کی سامراجی جنگ کے نتیجے میں عسکریت پسندی اور طالبانائزیشن کے سلسلے کی منظم کڑی تھی، دوسری طرف فوجی آپریشن کو جواز بنا کر قبائل کو اپنے ہی ملک میں مہاجر بنا دیا گیا۔ انضمام کے وقت ان کی کوئی اجتماعی آواز نہیں تھی، فوجی آپریشن سے زخمی قبائل نے پاکستان سے وفاداری کا رشتہ برقرار رکھا، آزاد قبائل نے انضمام کے فیصلے کو قبول کر لیا، حالانکہ اس بارے میں ان کی رائے بھی نہیں پوچھی گئی۔ اس پس منظر میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق قبائل کی آواز بن گئے ہیں۔ کچھ دنوں قبل پشاور میں جماعت اسلامی کی جانب سے سراج الحق کی صدارت میں ’’حقوق قبائل کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی تھی جس میں احتجاجی تحریک کا اعلان کیا گیا تھا۔ قبائل کو یہ بتایا گیا کہ ایف سی آر کے کالے قانون سے ان کو نجات حاصل ہو جائے گی، لیکن ایف سی آر کے خاتمے کے باوجود ان کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا ان پر عمل نہیں ہوا۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں جو اضطراب موجود ہے وہ ایک الگ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے قبائل میں غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ قبائل جدید دور میں بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں حالانکہ یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔