کراچی کو اس کاحق کیوں نہیں ملتا ؟

219

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا ایک روزہ دورئہ کراچی جمعہ 17مارچ کو شاہراہ فیصل سمیت شہر کی 10اہم شاہراؤں پر دھرنا ہوگا

کراچی میں پیپلزپارٹی کا کھیل جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کو معلوم ہے کہ کراچی کے عوام نے اسے مسترد کردیا ہے اور وہ کراچی میں اپنا میئر نہیں لا سکتی، اس لیے وہ اب حکومتی اختیارات و وسائل اور ریاستی مشنری کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کے جمہوری عمل کو مکمل نہیں ہونے دے رہی۔ اور اُس کے اس عمل پر پورا الیکشن کمیشن ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، اس وقت کراچی برباد ہے اور جہاں اس کا انفرااسٹرکچر تباہ ہے وہیں اسٹریٹ کرائمز عروج پر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کراچی میں بدامنی قائم رکھنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور اس نے طے کیا ہوا ہے کہ شہر کی حالت کو درست نہیں کرنا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ اُس کی اتحادی بھی شامل ہے اور اُسی کی خوشنودی کے لیے ایک اور جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے مطابق حکومتِ سندھ نے کراچی ڈویژن میں 53 یوسیز بڑھانے کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں یوسیز کی تعداد 246 سے بڑھا کر 299 کردی گئی ہے۔ حکومتِ سندھ کے جاری اعلامیے کے تحت یوسیز میں اضافے کے نوٹی فکیشن کا اطلاق آئندہ بلدیاتی انتخابات سے ہوگا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ابھی نئی مردم شماری کے بعد جو صورتِ حال سامنے آئے گی اس میں بھی تو یہی کام کرنا ہے، پھر ابھی ہنگامی بنیادوں  پر کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کا مطلب ہے پیپلز پارٹی صرف اور صرف کراچی کے لوگوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔اور یہ کھیل منظم ہے جس کی نشاندہی امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن بار بار کررہے ہیں  انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی طرف سے جماعت اسلامی کی چھینی گئی نشستوں کے حوالے سے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کی سماعت میں شرکت بھی کی تھی جس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن میں ایک بار پھر اپنے اس واضح اور دوٹوک موقف کا اعادہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن مزید تاخیر کے بجائے نتائج کے حوالے سے زیر التواء تمام نشستوں کے معاملات فوری طور پر طے کرے اور کسی بھی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر حق اور انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔ ملتوی شدہ 11نشستوں کے انتخابی شیڈول کا فوری اعلان کرے، دوبارہ گنتی کے نام پر جن نشستوں پر دھاندلی اور نتائج کی تبدیلی ثابت ہوئی ہے پھر بھی اس کا نوٹیفیکشن جاری کیا گیا ہے اسے ڈی نوٹیفائی کرے، جن آر اوز ڈی آر اوز سے شکایات ہیں اور جو سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے زیر اثر ہیں معاملات دوبارہ ان ہی کی طرف بھیجنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے.اب تک کے جاری کردہ نتائج کے مطابق 358وارڈز میں جماعت اسلامی جیت چکی ہے، پیپلز پارٹی کے پاس 300وارڈز بھی پورے نہیں اور پی ٹی آئی نے 214وارڈز جیتے ہیں، اس لیے کراچی کا میئر تو جماعت اسلامی کا ہی بنے گا۔ اب کوئی اسے عزت سے قبول کرے یا نہ کرے۔ اگر کسی قسم کی کوئی انجینئرنگ کر کے، غیر جمہوری رویہ اور خرید و فروخت کے ذریعے ہمارا میئر بننے سے روکا جا سکتا ہے تو یہ کوشش بھی کر کے دیکھ لی جائے، یہ رویہ اور طرز عمل جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہو گا اور خریدنے اور فروخت ہونے والے دونوں اپنا منہ کالا کریں گے. اس کے ساتھ حافظ نعیم نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ “

اہل کراچی نے جماعت اسلامی کو جو مینڈیٹ دیا ہے، اس کا اور اپنی ایک ایک سیٹ کا تحفظ کریں گے اور اس کے لیے ہر قسم کا آئینی و قانونی اور جمہوری طریقہ اختیار کریں گے، احتجاج اور دھرنا ہمارا آئینی و قانونی حق ہے، اس سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔جمعہ 17مارچ کو شاہراہ فیصل سمیت شہر کی 10اہم شاہراؤں پر دھرنے دیں گے.

اصل بات صرف یہی ہے کہ کراچی پیپلزپارٹی اور حکمرانوں کے نشانے پر ہے اور یہ کسی طور پر نہیں چاہتے کہ کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر بنے، اور یہ بات صرف کہنے میں سادہ ہے، جبکہ اتنی سادہ نہیں ہے، کیونکہ کراچی معیشت کا حب ہے اور کراچی کے پاس ہی وسائل ہیں، ملک کی 70فیصد معیشت ہے، اس وقت یہاں عالمی اداروں کے کئی پروجیکٹ چل رہے ہیں اور اس میں بڑا سرمایہ اِدھر سے اُدھر ہورہا ہے، ایسے میں پیپلز پارٹی کس طرح چاہے گی کہ کراچی کی میئرشپ کسی اور کے پاس جائے! جب کہ دوسری طرف شہر کی بدترین حالت کو دیکھ کر کیا تاجر اور کیا عام آدمی.. سب ایک ہی بات کررہے ہیں کہ میئر جماعت اسلامی کا ہونا چاہیے، کیونکہ انہوں نے کراچی میں عبدالستار افغانی سے لے کر نعمت اللہ خان تک کارکردگی دیکھی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق جو ایک روزہ دورے پر گزشتہ دنوں کراچی تشریف لائے تھے اس ساری صورتِ حال پر ان کا کہنا ہے کہ:

”پیپلز پارٹی نے 1970ء میں نتائج تسلیم نہیں کیے جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔ وزیراعلیٰ اپنی خوش فہمی دور کرلیں، کراچی کا میئر جماعت اسلامی کا ہی بنے گا۔ 358 وارڈز میں جماعت اسلامی نے جیت حاصل کی ہے اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی بضد ہے کہ میئر جیالا ہوگا۔ پیپلز پارٹی اپنی شکست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اگر کراچی کے عوام کے فیصلے کی نفی کرے گی تو صوبے کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ زیادتی کرے گی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو دو ماہ گزر گئے ہیں، الیکشن کمیشن بتائے کہ ملتوی شدہ 11 نشستوں کے انتخابات کیوں نہیں کروائے جارہے؟ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ گزشتہ سال جون میں مکمل ہوا تھا لیکن ان علاقوں کے منتخب عوامی نمائندے بھی تاحال اپنے اختیارات سے محروم ہیں۔ پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی سیاست تباہی اور جہالت کی سیاست ہے۔ ان کی آپس کی لڑائی میں عوام کے مسائل ان کا ایجنڈا نہیں بلکہ یہ ذاتی لڑائی ہے جس میں پوری قوم تباہ ہورہی ہے۔ “

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی کی تباہی کی بنیادی وجہ بلدیاتی اداروں کا نہ ہونا بھی ہے۔ بلدیاتی ادارے شہریوں کو اپنی شکایات کا اظہار کرنے اور فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ ان بلدیاتی اداروں کے بغیر سرکاری اہلکاروں کے لیے کوئی جوابدہی نہیں ہے، اور اس کے نتیجے میں شہر کا بنیادی ڈھانچہ اور خدمات متاثر ہوتی ہیں اور ہورہی ہیں۔ یہ ادارے اس وقت کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ شہر کو موجودہ تباہی کی حالت سے نکالنا ہے، اس کو ٹھیک کرنا ہے تو کراچی میں بلدیاتی اداروں کو متحرک کرنے کے لیے منتخب نمائندے کو شہر کا نظام سنبھالنے کا موقع دینا ہوگا،آخر کراچی کے ساتھ یہ سلوک کب تک جاری رہے گا؟ اس کو اس کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ کراچی کا ہر ہر شہری اس سوال کے ساتھ سراپا احتجاج ہے۔