سیاسی انتشار، قومی سلامتی کے لیے خطرہ

466

پاکستان کا سیاسی انتشار بڑھتا جارہا ہے، حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار کرلے، حکومت نے پوری ریاستی قوت سابق وزیراعظم کو گرفتار کرنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر لگادی لیکن پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں نے مزاحمتی حصار بنا کر حکومت کی کوشش کو ناکام بنادیا۔ حکومت نے سابق وزیراعظم کی گرفتاری کو قومی مسئلہ بنادیا ہے جو موجودہ سیاسی منظرنامے میں کسی کے حق میں نہیں جاتا۔ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت بدحواسی کا شکار ہے۔ 11 ماہ قبل پی ڈی ایم نے دیگر جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو گرانے میں اور اپنی حکومت قائم کرنے میں تو کامیابی حاصل کرلی، لیکن اس عمل نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کردیا۔ صوبہ پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دو بڑے صوبوں کے انتخابات منعقد ہونے ہیں۔ حکومتی جماعتیں اور مقتدرہ کی بعض قوتیں فوری طور پر انتخابات سے گریز کررہی ہیں۔ ان طاقتوں کی خواہش کے برعکس عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں انتخابی نظام الاوقات کا اعلان کردیا گیا ہے، لیکن حکومت آئین کے تقاضے کو پورا کرنے سے گریز کررہی ہے۔ عمران خان نے پنجاب میں انتخابی مہم شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے انتخابی ریلی نکالنے اور باہر نکلنے کا فیصلہ کیا تو حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرکے ریلی کو روکنے اور عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی طاقت کا استعمال کیا۔ اس مرحلے پر حکومت عمران خان کو گرفتار نہیں کرسکی۔ دوسرے مرحلے پر حکومت نے چند مقدمات میں جاری کردہ وارنٹ کی بنیاد پر پھر گرفتاری آپریشن کیا جسے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ناکام بنادیا۔ اب عمران خان کو عدالت سے ریلیف مل گیا ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے 16 مارچ تک پولیس آپریشن کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آگیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ جو تحریری ضمانت عمران خان کی جانب سے دی گئی ہے وہ متعلقہ عدالت میں دی جائے جہاں ان کے خلاف مقدمہ ہے۔ قومی منظرنامے میں سیاسی اختلاف شخصی تصادم میں تبدیل ہوگیا ہے۔ وزارت عظمیٰ سے معزولی کے بعد عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ بعض قوتیں ان کو قتل کرنا چاہتی ہیں۔ سیاسی ریلی میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے جس کو حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اب بھی ان کا موقف یہ ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ اس لیے انہیں عدالت میں پیشی سے استثنا دیا جائے۔ یہ فیصلہ عدلیہ ہی کو کرنا ہے، جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ اس کا فرض ہے کہ وہ ریاست کی رٹ قائم کرے۔ سیاسی بحران کا موجودہ منظرنامہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اقتصادی بحران نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں اور یہ سوالات قومی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں، پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہورہی ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کی وجہ سے درآمدات کے لیے ڈالر موجود نہیں ۔ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کی بحالی ضروری ہے۔ اس حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔ شرائط پر پیشگی عمل کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا ناقابل تصور اور تباہ کن طوفان آچکا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کے لیے 170 ارب روپے کے منی بجٹ کا بوجھ قوم کی پشت پر لاددیا گیا ہے۔ پٹرول پر محصولات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ اسی طرح گردشی قرضوں کے خاتمے کے نام پر بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر روپے کی قدر مسلسل گرتی جارہی ہے۔ ان تمام تلخ اقدامات کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف کی جانب سے معاہدے پر دستخط کی منظوری کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان کے سیاسی بحران کی وجہ سے حکومت کی ضمانت کو عالمی ادارہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ حالانکہ حزب اختلاف کی جماعت جو سابق حکومت ہے وہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کر چکی ہے جبکہ موجودہ حکومت میں ملک کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں شامل ہیں۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کے حلقوں سے واقف ذرائع یہ کہتے ہیں کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ انتخابات کے بعد بھی موجودہ حکومت ہی اقتدار میں ہوگی۔ اب یہ بات کہی جارہی ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو معاہدے پر دستخط پر آمادہ کرنے کے لیے امریکا سے رجوع کیا ہے۔ اس خبر کے بعد پاکستان میں متعین امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا بیان سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ پاکستان اور آئی ایم ایف میں ڈیل ہوجائے۔ آئی ایم ایف کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ تعاون کو تیار ہیں، چند دنوں میں معاملات طے ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے افغانستان کے بارے میں امریکی صدر کے سابق مندوب زلمے خلیل زاد کے ذریعے بھی حکومت پاکستان کو کچھ پیغام دیا گیا ہے۔ سابق امریکی سفیر برائے افغانستان و عراق زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ پاکستان کو سیاسی، معاشی اور سیکورٹی کے تہرے بحران کا سامنا ہے، بڑی صلاحیت کے باوجود یہ ملک کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے اور اپنے بڑے حریف بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ یہ وقت گہرے سوچ بچار، جرأت مندانہ موقف اور حکمت عملی اختیار کرنے کا ہے۔ قیدوبند، قتل اور تختہ دار پر لٹکانے جیسے حربوں کے ذریعے سیاسی رہنمائوں کو منظر سے ہٹانا غلط راستہ ہے۔ موجودہ سیاسی و معاشی بحران کی موجودگی میں امریکی سفیر اور ایک سابق امریکی سفارت کار کے بیانات کے شدید مضمرات ہیں۔ ایسے عالم میں سیاسی قوتوں کا باہمی تصادم کسی کے بھی فائدے میں نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی بحران نے قوم کو پاکستان کی سابقہ تاریخ کا جائزہ لینے پر مجبور کردیا ہے۔ مقتدر طبقے کی حکمرانی کے ہر شعبے میں ناکامی نے آئی ایم ایف سمیت تمام غیر ملکی قوتوں کو مداخلت کا موقع دے دیا۔ اس موقعے پر بھی سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے پولیس اور ریاستی اداروں کی طاقت استعمال کررہی ہیں۔ قومی ذرائع ابلاغ پر بھی پولیس کی طاقت کو استعمال کیا جائے گا تو سیاسی بحران قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ کھیل آج سے نہیں ہو رہا ہے بلکہ برسہا برس سے جاری ہے ۔ عوام نواز شریف زرداری ، عمران خان کو الزام دیتے ہیں یا ان کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں جبکہ یہ سب کسی قوت کے اشاروں پر چلتے ہیں ،اب وقت آ گیا ہے کہ خود کو سیاسی اور جمہوری کہنے والے یہ سیاستدان سیاسی اور جمہوری ہونے کا ثبوت دیں ۔ پارٹی اور ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر قومی مفاد کے بارے میں سوچیں ۔ جس روز ایسا ہو گیا وہ دن پاکستان کی حقیقی آزادی کا دن ہو گا ۔