کیا گرفتاری قوم کا نمبر ایک مسئلہ ہے؟

1364

پوری پاکستانی قوم کو مختلف ڈراموں میں الجھاکر رکھ دیا گیا ہے۔ صبح شام کوئی نہ کوئی نیا ڈرامہ آجاتا ہے۔ ایک دن توشہ خانہ دوسرے دن گرفتاری منگل کا پورا دن پاکستانی قوم کو ٹی وی سے چپکاکر صرف ایک موضوع پر لگاکر رکھا گیا تھا کہ عمران خان گرفتار ہورہے ہیں یا نہیں۔ ملک بھر کی پولیس ان کی تلاش میں ٹی وی چینلز کی ڈی ایس این جی زمان پارک میں قوم کی نظریں ٹی وی پر ایسا محسوس ہورہا تھا گویا عمران خان کی گرفتاری کے ساتھ ہی ملک میں آٹا سستا ہوجائے گا۔ ڈالر کا ریٹ گرجائے گا اور پیٹرول سستا ہوجائے گا۔ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوجائے گا ۔ معاشی پہیہ چل پڑے گا۔ لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی چیئرمین کا رویہ ہے کہ اگر وہ گرفتار ہوگئے تو ملک تباہ ہوجائے گا۔ آئین پامال ہوجائے گا انصاف کا خون ہوجائے گا۔ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے کے لیے کوشش کررہے ہیں جیل بھرو تحریک اور ضمانتیں بھی کررہے ہیں اور حکومت ان کی گرفتاری کا اتنا شور مچارہی ہے کہ گرفتاری سے اتنی سیاسی شہرت نہیں ملے گی جتنی اس گرفتاری کے ڈرامے سے مل رہی ہے۔ حکمران اور پی ٹی آئی کی قیادت قوم کو کہاں لے جارہے ہیں کیا اس ملک کا واحد مسئلہ عمران خان کی گرفتاری ہے یا ان کا گرفتاری سے بچ جانا دونوں ہی رویے غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ ہیں۔ عمران خان کے خلاف جن مقدمات میں وارنٹ جاری ہوتے ہیں ان میں انہیں سزائے موت تو نہیں ہوگی۔ انہیں عمر قید بھی نہیں ہوگی۔ کم از کم جج کو دھمکی کے معاملے میں تو تابرخواست سے عدالت یا چند ماہ کی جیل ہوسکتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ سیاسی مقدمہ ہے۔ البتہ توشہ خانہ کا معاملہ ایسا ہے کہ اگر ان کے خلاف عدالت میں الزامات ثابت ہوجاتے ہیں جس کا قوی امکان ہے تو انہیں سزا سے زیادہ سبکی کا خوف ہے۔ کیونکہ سزا تو یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تمام رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔ جرمانہ بھی دیا جائے اور ممکن ہے اسمبلی کی رکنیت یا عوامی مناصب کے لیے نااہل بھی قرار دے دیا جائے۔ بس اسی خوف کے مارے وہ غیر سیاسی رویہ اپنائے ہوئے ہیں اس صورت میں ان کا دوسروں کو چور اور بدعنوان کہنے کا بیانیہ دم توڑ جائے گا۔ جن الزامات پر عمران خان کو گرفتاری کرنے کے لیے پورے ملک سے پولیس جمع کرکے زمان پارک پہنچائی گئی ہے یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے کسی زمانے میں سندھ بھر کی پولیس کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کرتی تھی روز ٹی وی کے ذریعہ بتایا جاتا کہ آپریشن جاری ہے۔ پچاس سال ہوگئے نہ کچے کا علاقہ پکا ہوا نہ ڈاکو پکڑے گئے اور نہ عوام کو تحفظ ملا۔ آپریشن پر خوب فنڈ خرچ ہوگئے اسی طرح ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کلین اپ، ضرب عضب، رد الفساد وغیرہ کے باوجود دہشت گردی بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ جس انداز سے قوم کو ٹی وی سے چپکایا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا اصل مقصد عمران خان کی گرفتاری نہیں ہے بلکہ یہ کام تو یہ کسی بھی وقت کرسکتے ہیں اس سارے ڈرامے سے اصل مسائل سے آنکھیں چرانے کا کام لیا جارہا ہے۔ کئی ماہ سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ لیکن ہر ہفتے نیا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے یہ خبریں یا خواہش بھی خبر بن کر ہر ہفتے آجاتی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرگیا ہے یا کرنے والا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہورہا اور ملک ترقی بھی نہیں کررہا۔ روس سے گندم آرہی ہے، بجلی آرہی ہے، تیل آرہا ہے لیکن وہ بھی نہیں آرہا۔ قوم کو یہ سوال کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا کہ اس کے وسائل کہاں خرچ ہورہے ہیں۔ قوم کا بھی یہ حال ہے کہ اسے شریف خاندان، زرداری خاندان مردہ باد اور عمران خان مردہ بات سے فرصت نہیں ان تینوں گروپوں کا رویہ یہی ہے کہ تیرا چور مردہ باد میرا چور زندہ باد۔ ملک کے کون سے صوبے شہر گائوں میں انصاف کی فراوانی ہے ترقی کا عروج ہے امن و امان ہے کس محکمے میں بدعنوانی نہیں ہے۔ کون سا ادارہ اپنا کام کررہا ہے اس جانب ارکان پارلیمنٹ کو توجہ دینی چاہیے تھے لیکن وہ تیرا چور مردہ باد میرا چور زندہ باد کے نعرے لگارہے ہیں۔ اس سارے ڈرامے میں حکومت بتائے کہ اگر وہ ایک عام سے مقدمے میں ملوث سیاسی رہنما کو نہیں پکڑ سکتی تو کسی دہشت گرد کو کسی بڑے مجرم کو کیسے پکڑے گی اور عمران خان صاحب بتائیں کہ قوم کی خاطر خون کا آخری قطرہ بھی بہادینے کا دعویٰ کرنے والے جیل جانے سے گھبرارہے ہیں۔ گرفتار ہوگئے تو پھر چیلنج کریں۔ لیکن انہیں پتا ہے کہ جو کچھ ان کے دور میں ہوا وہی اب ان کے ساتھ ہوگا۔ عمران خان کے دور میں بھی غلط ہوا اور اگر عمران خان کو گرفتار کرنے کے کوئی ماورائے قانون اقدام کیا گیا تو وہ بھی غلط ہوگا۔