کوئی پوچھنے والا ہے کہ نہیں؟

613

یہ 1970 کی بات ہے پورے ملک میں انتخابی مہم چل رہی تھی اسی دوران مشرقی پاکستان میں زبردست سیلاب آگیا ویسے تو وہاں ہر سال سیلاب آتا تھا لیکن یہ سیلاب بہت شدید تھا اس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوگئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔ پاکستان کی حکومت نے سیلاب متاثرین کی بھر پور مدد کی اور مغربی پاکستان سمیت پورے ملک میں مشرقی پاکستان کے لیے سیلاب فنڈکی مہم چلائی گئی۔ بھارت کی طرف سے بیس لاکھ روپے کی مدد کا اعلان کیا گیا بھارت ہر چیز پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا اس نے جب دیکھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے سیلاب متاثرین کی امداد کو مشرقی پاکستان کے بنگالی اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے کہ ان کا الزام تھا کہ حکومت پاکستان کو جتنی مدد کرنا چاہیے اتنی وہ نہیں کررہی، بھارت نے فوری طور پر بیس لاکھ کی رقم کو دو کروڑ کردیا یہ اس کی ایک چال تھی مشرقی پاکستان کے شہریوں کو حکومت پاکستان کے خلاف پہلے سے موجود نفرت کو بڑھانے کی۔
یہ اسی زمانے کی بات ہے یعنی اب سے 53سال پہلے کی جب ملک میں پٹرول چار روپے گیلن ملتا تھا ڈیزل اور مٹی کا تیل اور سستا تھا لوگوں کی ذاتی سواریاں کم تھیں، بسیں اور ٹرک وغیرہ ڈیزل پر چلتے تھے اس وقت ہمیں یاد ہے حکومت پاکستان نے مشرقی پاکستان فلڈ ٹیکس کے نام سے پٹرول پر ایک روپیہ فی گیلن بڑھایا تھا کچھ لوگوں نے اس پر احتجاج تو کیا تھا لیکن یہ بہت زیادہ آگے نہیں بڑھا کہ مشرقی پاکستان پر ایک غلط تاثر پڑتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا ہوئے 52سال ہوگئے اور یہ ٹیکس ابھی تک وصول کیا جارہا ہے، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اس وقت کی اپوزیشن نے کئی بار یہ مطالبہ کیا کہ ایک روپیہ فی گیلن جو مشرقی پاکستان فلڈ ٹیکس لگایا گیا ہے اسے ختم کیا جائے لیکن یہ مطالبہ نہیں مانا گیا اور ابھی تک شاید یہ پاکستانی شہریوں سے وصول کیا جارہا ہے۔ اس وقت ایک گیلن میں چار لیٹر ہوتے تھے اس طرح میری یاداشت کے مطابق اس وقت پٹرول سوا روپے یعنی ایک روپے چار آنے لیٹر پڑتا تھا۔
جس طرح مشرقی پاکستان ختم ہوگیا لیکن اس کے نام کا ٹیکس ابھی تک وصول کیا جارہا ہے اسی طرح ہمارے ملک میں اعشاری نظام کب کا ختم ہوگیا اب بازاروں میں عام لین دین میں بھی اس کا ذکر تک نہیں ہوتا لیکن پٹرول کی خریداری میں یہ اعشاری نظام ابھی تک چل رہا ہے، اعشاری نظام ختم ہونے کے ساتھ روپے کے بعد کے سارے سکے بھی ختم ہو گئے کاغذ کے ایک روپے کے نوٹ عرصہ ہوا ختم ہو گئے پانچ کا نوٹ بھی ختم ہو گیا اس کی جگہ پانچ روپے کا سکہ اور ایک اور دو روپے کے سلور کے سکے چل رہے ہیں۔ اب بازاروں میں عام خرید و فروخت میں پیسوں کا لین دین تو کب کا ختم ہوچکا اور چونی اٹھنی بھی ختم ہوگئی بس آخری سکہ روپیہ ہے گھروں میں جو یوٹیلیٹی بلز آتے ہیں اس میں بھی اب دس روپے تک رائونڈ کردیا جاتا ہے مثلاً اگر کسی کا بل 754روپے ہے تو اسے رائونڈ کرکے 750روپے کردیے جاتے ہیں اور بقیہ چار روپے اگلے بل میں شامل کر دیے جاتے ہیں اسی طرح اگر کسی کا بل 756روپے ہے تو اسے بھی رائونڈ کرکے 760 کردیا جاتا ہے اور اضافی چار روپے اگلے ماہ کے بل سے منہا کردیے جاتے ہیں۔
حکومت کے کارپردازوں سے یہ پوچھنا ہے کہ جب عام لین دین میں پائی، پیسے، اکنی، دونی، چونی، اٹھنی اور روپے تک کی ٹرانزیکشن ختم ہوگئی ہے تو ایک پٹرول کا شعبہ ایسا کیوں ہے کہ یہاں ابھی تک اعشاری نظام چل رہا ہے اور یہ شاید بہت سے لوگوں کو نہ معلوم ہو کہ اس طرح اربوں روپے خاموشی سے عوام کی جیبوں سے نکال لیے جاتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت پٹرول کے جو ریٹ طے کرتی ہے اور جس کا اعلان کیا جاتا ہے پٹرول پمپ والے اس ریٹ سے پچاس ساٹھ پیسے زیادہ ہی وصول کرتے ہیں اس میں بھی پٹرول پمپ مالکان یہ دھاندلی کرتے ہیں کہ خریداروں سے اس سے بھی زیادہ پیسے وصول کرتے ہیں مثلاً جیسے کہ آج کل 267.80 پیسے بہت بڑا بڑا ہر پٹرول پمپ پر لکھا ہوتا ہے کہ دور سے ہی نظر آجائے لیکن اگر آپ ایک لیٹر پٹرول ڈلوائیں تو پمپ والے 270روپے وصول کرتے ہیں اب انہوں نے روپے دو روپے بھی واپس دینا چھوڑ دیا ہے، چونکہ لوگ جلدی میں ہوتے ہیں پمپ والے یہ بھی چالاکی کرتے ہیں کہ اگر ان کے یہاں چار پٹرول ڈالنے والی مشینیں نصب ہیں تو یہ عموماً دو چلاتے ہیں باقی دو کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ خراب ہیں اس کی وجہ سے رش بڑھ جاتا ہے لوگ جلدی میں ہوتے ہیں ایک دو روپے وقت بچانے کی خاطر چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ تو کچھ ٹیکنیکل قسم کی بے ایمانیاں ہیں جو پٹرول پمپ والے کرتے ہیں اس کا سادہ سا حل یہ ہے کہ ہمارے حکمران جن کی ترجیح عوام کو سہولت دینا ہو وہ اعشاری نظام ختم کریں اور پھر ایسے نرخ مقرر کیے جائیں جس میں آخر میں صفر ہو جیسے 270, 280, 290 یا 300 روپے اس طرح عوام کی جیبوں پر ہونے والی اربوں روپے کی مہذب ڈکیتی ختم ہو جائے گی، دوسری بات یہ کہنا ہے کہ پٹرول پمپ والے ورکرز کے نام پر غنڈے رکھتے ہیں جو خریداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ماہر ہوتے ہیں آپ نے کہا کہ تین سو کا پٹرول ڈالیے انہوں نے آپ کے سامنے مشین میں زیرو کردیا پھر ٹنکی کے اندر تک پٹرول کا پائپ لے جا کر اس طرح اچانک کھولتے ہیں کہ پلک جھپکتے ہی میٹر پر سو روپے تک سوئی آجاتی ہے پھر ذرا رفتار سست ہوجاتی ہے آپ اس پر اعتراض کریں گے وہ بڑی دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ کہہ گا کہ شروع میں پریشر تیز ہوتا ہے لیکن ان کے جواب سے دل مطمئن نہیں ہوتا دوسری حرکت یہ ہوتی ہے جو عموماً کم کامیاب ہوتی ہے کہ چاہے کچھ ہو لوگوں کی نظریں میٹر پر لگی ہوتی ہیں ہوتا یہ ہے کہ آ نے کہا 800روپے کا پٹرول ڈالو اس نے آپ کے سامنے آٹھ سو کا ہندسہ لگایا پھر زیرو دکھایا اور ڈالنا شروع کردیا اتنے میں دوسرا بندہ آیا اس نے کہا پیسے دیجیے آپ پیسے نکالنے میں لگ گئے اتنے میں پٹرول ڈالنے والے نے چھے سو کے بعد ہی لیور گرادیا اب آپ کے پاس وقت اور برداشت ہو تو ان سے جھگڑا کریں میں کہتا ہوں کہ کوئی ایسا ادراہ ہے جو ان کے کمپیو ٹرائزڈ میٹروں کو چیک کرے اور ان کی غنڈہ گردی کو کنٹرول کرے اور عوام کو ان کی ڈکیتیوں سے بچانے کے اقدامات کریں۔ اس عنوان پر اور بھی نکات تھے لیکن فی الحال اتنا ہی کافی ہے اگر اس پر بھی حکومت کنٹرول کرنے کے اقدامات کرے تو یہ عوام پرہت بڑا احسان ہوگا۔