علم سے محبت ہماری میراث ہے

561

جاوید اختر بالی وڈ کے مشہور کہانی کار منظر نگار اور گیت کار ہیں۔ لیکن اس وقت اُن کی شہرت کی وجہ کچھ اور ہے جس نے انہیں خبروں میں گرم رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ ان کی خواہش بقول ان کے یہ تھی کہ دونوں ملکوں (پاکستان اور بھارت) کے درمیان جو اتنی گرم فضا ہے وہ کم ہونی چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس ہوا انہوں نے اپنے متنازع بیان سے اسے مزید گرم کردیا۔ یہ غیر اختیاری کے بجائے اختیاری لگتا ہے۔ اُن سے تو ایک سادہ سا سوال کیا گیا تھا کہ یہاں آپ کے ساتھ بہت محبت کا سلوک ہوتا ہے کیا آپ واپس جا کر بتاتے ہیں کہ وہ لوگ تو ہمیشہ اچھے لوگ ہیں ہمیں پھول بھی پہناتے ہیں پیار بھی کرتے ہیں۔ اس سارے سوال کے جواب میں انہوں نے جو بات کی اس سے اُن کی مجبوری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اُن کی توقع کے مطابق انہیں بھارت میں ہیرو کے طور پر مان لیا گیا۔ ان پر بھارتی میڈیا خصوصاً بالی وڈ سے داد کے ڈونگرے برسنے لگے یہی اُن کو درکار تھے۔ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر تو نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا انہیں بھارت میں مسلمانوں کی حالت پر دُکھ نہیں۔ نہ ہی کشمیریوں کی قید و بند اور ان پر ظالمانہ رویے پر زبان کھولنے کی جرأت ہے۔ ہاں پاکستان میں آکر اسٹیج پر بیٹھ کر اپنے میزبانوں پر سیاسی جملے بازی کرکے بھارت میں ہیرو کی طرح استقبال کرنے کی توقع ضرور ہے جو یقینا پوری ہونے میں دیر نہیں لگی۔ بھارت سے آنے والے بیانات اُس کو تقویت دے رہے ہیں۔
بہرحال ان کے میزبان باظرف ہیں۔ فنون لطیفہ کی محفل میں سیاسی حملے کوئی مناسب بات نہ تھی۔ یہ اپنے ان میزبانوں کی توہین تھی جنہوں نے ان کی مہمان نوازی اور احترام میں کوئی کسر نہیں رکھی۔ ورنہ اس کا جواب تو دیا جاسکتا تھا۔ کلبھوشن کسی خیر سگالی دورے پر پاکستان آیا تھا اور نہ ہی ابھی نندن۔ پھر پاکستانی اداکاروں اور گلوکاروں کے ساتھ تو بھارتی رویہ ناروا اور متعصبانہ ہوتا ہی ہے۔ انہوں نے تو کھلاڑیوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ فیض میلے کی منتظم منیزہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ محبت ہماری میراث ہے۔ یقینا محبت سے بڑھ کر خوبصورت میراث کوئی نہیں۔ اور فنون لطیفہ سے جڑے لوگ اس بات کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔
ٹھیک بات یہ ہے کہ سیاست کے لیے سیاست کا میدان جیتنا لازم ہے لیکن اگر یہ جرأت نہیں تو فنون لطیفہ کے میدان سے اپنے قد کو سیاست کے ذریعے بڑھانا بھی مناسب نہیں۔ منیزہ ہاشمی نے تو یہ بات آرام سے کہہ دی کہ اگر کوئی سیاست کرنا چاہتا ہے تو یہ اس پر منحصر ہے ہم اپنے دل کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ یہی فیض صاحب نے ہمیں سکھایا ہے۔
ٹھیک ہی کہا مگر فیض نے اور بھی بہت کچھ سکھایا ہے کہ فیض کہتے ہیں
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
سو بولنے کے لیے تو بہت کچھ ہے اور اگر آئندہ منیزہ کی حوصلہ افزائی پر پھر کچھ کہنے والے اس اسٹیج کو استعمال کرجائیں تو کیا بولنا ہے؟ کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ منیزہ ہاشمی کو سوچ کر رکھنا چاہیے۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ مصروفیت کے باعث وہ جاوید اختر کا سیشن نہیں سن سکیں۔ اگر وہ پہلے نہیں سن سکیں تھیں تو اب ضرور سن لینا چاہیے۔
محبت ہماری میراث یقینا ہے لیکن علم سے محبت کی کہانی ہی الگ ہے جو ایک نئے انداز سے بلوچستان کے شہر تربت میں لکھی گئی۔ جہاں ایک ادبی ثقافتی اور علمی فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔ اس دور افتادہ چھوٹے سے شہر میں لوگوں نے ریکارڈ تعداد میں کتابیں خریدیں، علم سے محبت کا ثبوت دیا صرف ایک اسٹال بلوچستان اکیڈمی کی طرف سے لگائے جانے والے اسٹال کے مالک کا کہنا تھا تین دن کے دوران ان کے اپنے اسٹال سے تین لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں۔ بحیثیت مجموعی ایک اندازے کے مطابق پینتیس لاکھ کتابیں لوگوں نے خریدیں۔ مقامی کتب فروشوں کے علاوہ کراچی اور لاہور سے بھی تیس کے قریب پبلشرز موجود تھے۔ اس ادبی فیسٹیول میں پینل ڈسکشن کے پروگرام بھی رکھے گئے تھے جس میں لوگوں نے نہایت دلچسپی لی۔ ادب اور علم سے محبت پاکستان کے طول و ارض میں رچی بسی ہے۔ کوئی بلوچستان کے صحرایوں کی پیاس بھی نظر میں رکھے تو مقاصد ہوگا فیض کہتے ہیں۔
نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلہ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے
امید یار نظر کا مزاج درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے