میڈیا

2286

میں ایچ ای سی کے ذمے داران کی توجہ سوشل میڈیا پر کامسیٹس یونیورسٹی کا ایک پرچہ وائرل ہورہا ہے جو انگریزی ڈیپارٹمنٹ کا ہے کی جانب دلانا چاہتی ہوں۔ اس پر سینیٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر نے آواز بھی اٹھائی ہے۔ پرچے میں جو سوال درج ہے اس پر پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اگرچہ یونیورسٹی نے اس لیکچرر کو یونیورسٹی سے فارغ کردیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فارغ کرنا ہی حل تھا؟
اس سے پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انگریزی پرچے میں کچھ اسی قسم کا سوال تھا، کنیرڈ کالج میں پچھلے سال ایک ایسے ہی موضوع پر مباحثے کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کالج کی لڑکیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب کسی نے اعتراض اٹھایا تو کہا گیا کہ ہم تو معاشرے میں برائی کی نشاندہی کررہے ہیں۔ یہ معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی ہے یا کسی بھی واقعے یا تعلق کو نارملائز کرنے کی ایک سازش؟؟
مان لیجیے کہ اب یہ موضوعات آپ کی تعلیم گاہوں میں کھلے عام ڈسکس ہوتے ہیں۔ کامسیٹس کا لیکچرر کبھی بھی یہ سوال پرچے میں نہ دیتا اگر اس موضوع پر کلاس میں بحث نہ ہوئی ہوتی۔ یہ یونیورسٹی کی سطح میں انگریزی کے پرچے کا سوال تھا، جو لٹریچر انگریزی میں پڑھایا جا رہا ہے وہ مکمل طور پر مغربی سوچ کا عکاس ہے۔ اسی میں ایک ناول بھی شامل ہے جس میں بیٹا، ماں سے شادی کرنا چاہتا ہے اور پوری کہانی اس کے گرد گھومتی ہے۔ اب جب کہ یہ پرچہ وائرل ہوا ہے تو کیوں نہ ایچ ای سی کا ادارہ اپنا کردار ادا کرے اور انگریزی لٹریچر سے اس طرح کی ساری غلاظت نکال دی جائے جو ادب کے نام پر نوجوان ذہنوں میں انڈیلی جا رہی ہے۔ میرا ایچ ای سی سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجز میں انگریزی ادب کے نصاب پر نظر ثانی کی جائے اور نصاب نئے سرے سے مرتب کیا جائے تاکہ اپنی نسل کو ان تعلیمی غلاظتوں سے بچا سکیں۔
صائمہ عبدالواحد، کراچی۔