تاریخ اسلام اور حیاء

961

اگر ہم تاریخ کا مطالع کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کے زمانہ جاہلیت یعنی نبی پاکؐ کی ولادت مبارکہ سے پہلے کے زمانے میں عربوں میں بے حیائی اور بے شرمی عام تھی مرد و عورت کے ناچ گانے سے محظوظ ہونا یہ سب اس وقت بھی عام تھا۔ عرب کے بڑے بڑے شعرا عورتوں کی نازیبا حرکتوں اور اداؤں کا ذکر اپنی شاعری میں فخریہ کرتے تھے اور اسی طرح بعض لوگ باپ کے مرنے پر باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیتے۔ ان کے علاوہ بھی بے شرمی و بے حیائی کی رسمیں ان میں عام تھیں الغرض جاہلیت کے معاشرے کا شرم و حیا سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن جب ہمارے پیارے رسولؐ دنیا کو اپنی نورانی تعلیمات سے منور کرنے تشریف لائے تو آپ نے اپنی نگاہ حیا دار سے ایسا ماحول بنایا کے ہر طرف شرم و حیا کی روشنی پھیلنے لگی۔ ہمارے مسلم معاشرے میں بھی مغربی تہذیب و کلچر کی یلغار نے فحاشی و عریانی کا چلن عام کر دیا ہے۔ علامہ اقبال نے کافی عرصہ قبل متنبہ کیا تھا
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے جوانی تیری رہے بے داغ…
انسان کو جو صفات دوسری مخلوقات سے ممتاز و ممیز کرتی ہیں، ان میں ایک نمایاں صفت اس کی شرم و حیا کی حِسّ اور جذبۂ عفّت ہے۔ انسان کا لباس اسے موسم کی شدت سے بھی محفوظ رکھتا ہے اور اسے زیبائش و خوب صورتی بھی فراہم کرتا ہے لیکن سب سے اہم مقصد جو لباس سے پورا ہوتا ہے، وہ ستر کا ڈھانکنا اور اپنی حیا داری کا پاس ہے۔ اسلام میں حیا کی بے پناہ اہمیت ہے۔نبی کریم ؐ نے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص میں شرم و حیا نہیں، گویا اس میں ایمان نہیں۔ بے شرم انسان، ہر ذلت و پستی میں گرنے کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار رہتا ہے جب کہ با شرم و حیادار انسان اپنی اس صفت کی وجہ سے تمام مشکلات کے باوجود اپنے شرفِ انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی اکرمؐ کا اخلاق وکردار ہر پیمانے سے منفرد، بے مثال اور قابلِ تقلید ہے۔ آپؐ میں تمام فضائلِ حسنہ بدرجہ اتم و اعلیٰ موجود تھے اور شرم و حیا کی صفت بھی اتنی نمایاں تھی کہ صحابہ کرامؓ آپؐ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ آپؐ اعلیٰ خاندان کی پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ (مسلم)
نبی اکرمؐ جس معاشرے میں پیدا ہوئے تھے، اس میں دیگر اخلاقی خوبیوں کے معدوم ہوجانے کی طرح شرم و حیا کا وصف بھی تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ بے حیائی کے تمام مظاہر کھلے عام نظر آتے تھے۔ ایسے ماحول میں جنم پانے کے باوجود آپؐ اپنے بچپن اور لڑکپن میں بھی کبھی ننگے جسم گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ آپؐ نے کبھی مخلوط محفلوں میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ ایک غیر محرم مرد اور عوت کا کسی جگہ تنہائی میں اکٹھے ہونا شرم و حیا کے نازک آبگینے کو توڑ دینے کے مترادف ہے۔ اسی لیے آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جب دو غیر محرم مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔ (مسند احمد) نبی پاک نے زندگی بھر قضائے حاجت کے وقت اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رکھا حالانکہ عرب کے اس معاشرے میں اس کا ایسا زیادہ اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ آپؐ شہروں اور آبادیوں سے دور جنگل اور جھاڑیوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے۔ یہ آداب بظاہر معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی بہت بڑی معاشرتی اہمیت ہے۔ آپؐ کے صحابہؓ میں بھی اسلام اور سنت رسول کی برکات سے شرم وحیا کی اعلیٰ صفات پروان چڑھیں۔ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفانؓ کا یہ اعزاز تمام صحابہ میں ممتاز ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہ شرم و حیا کا پتلا تھے، ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ زندگی بھر انہوں نے اپنا جسم ننگا نہیں ہونے دیا۔ غسل کے وقت بھی وہ اپنا ستر کسی کپڑے سے ڈھانپنے کا اہتمام کرتے تھے۔نبی اکرم نے اسی لیے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے بھی عثمان سے حیا کرتے ہیں۔
امام شعبہ بن حجاج اپنے گھوڑے پر سوار جارہے تھے کہ ایک گستاخ‘ آوارہ اور اوباش نوجوان عبداللہ نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا۔ امام صاحب جان گئے کہ ناگہانی سر آگئی ہے۔ امام شعبہ بن حجاج فن ِ حدیث اور اْس کے ناقدین میں ایک بلند مقام رکھنے والی شخصیت‘ امیر المومنین فی الحدیث کے نامِ نامی سے جانے جاتے تھے۔ انہیں کون نہیں جانتا تھا! عبداللہ کو اْن کے مرتبے کا اچھی طرح احساس تھا مگر اْسے آج ذرا تفریح کی سوجھی تھی! شعبہ مجھے ایک حدیث تو سنائو: امام شعبہ نے پوری متانت سے جواب دیا سماعت ِ حدیث کا یہ طریقہ ہرگز نہیں! یہ سْن کر آپے سے باہر ہوتے ہوئے عبداللہ نے کہا ’تم مجھے حدیث سناتے ہو یا پھر۔ امام شعبہ نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ جوان اس انداز سے اسی جگہ حدیث سنے بغیر جان نہیں چھوڑتا تو آپ نے اصلاح کے لیے ایک حکیمانہ انداز اختیار کیا اور فرمایا اچھا چلو ٹھیک ہے میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں۔ پھر آپ نے ان تمام افراد (راویوں) کے اْسی تربیت سے نام لیے جس تربیت سے ہوتے ہوئے اِن حضراتِ گرامی کے واسطے سے یہ حدیث آپ تک پہنچی تھی اور پھر کہا رسول اللہؐ نے فرمایا کہ تم اگر حیا کو کھو دو تو جو چاہو سو کرو یہ سننا تھا کہ عبداللہ کے اندر چھپی اعلیٰ وارفع شخصیت (جو اپنے مرتبے سے گر چکی تھی) انگڑائی لے کر بیدار ہوئی اور سلامتی طبع کی فطری جانب لوٹ آئی! عبداللہ ٹھٹک کر رہ گیا اْس نے گویا کہ محسوس کیا کہ رسول اللہؐ نے اْس کو امام شعبہ سے تفریح لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے اور اْس سے فرما رہے ہیں ’’عبداللہ! اگر تجھ سے شرم و حیا جاتی رہے تو پھر جا جو چاہے کرتا رہ۔ ’’یقینا میری نیت شرارت کی تھی میں شرم سار ہوں‘‘ عبداللہ نے ندامت سے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا‘ امام شعبہ آپ ہاتھ بڑھائیں کہ میں آپ کے ہاتھ پر عہدِ توبہ استوار کروں!‘‘ اس حدیث نے عبداللہ کی زندگی کا رْخ موڑ دیا۔ عبداللہ جو کبھی
گلیوں میں پھرنے والے آوارہ اور اوباش نوجوان شمار ہوتے تھے‘ امام شعبہ کے شاگرد بن گئے اور پھر تحصیلِ علم کی منازل طے کرتے ہوئے امت محمد کے مایہ ناز علمائے حدیث میں سے ایک شمار ہوئے۔ صدیوں کی گرد اْن کی تابانی کو نہیں چھپا سکی اور آج بھی اہلِ علم کے درمیان وہ عبداللہ بن مسلمہ القعنبی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ احادیث کی چھے مشہور معتبر ترین کتب (صحاحِ ستّہ) خصوصاً ابودائود کے راویانِ حدیث کے سلسلوں (اسناد) میں آپ کا نام جابجا نظر آتا ہے امام ابو دائود نے تو عبداللہ بن مسلم القعنبی سے روایتِ حدیث کی ہے۔
بے حیائی کے اس ادارے پر اس کے توسط سے جو اخلاقی انحطاط آیا اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ آج سے دس سال قبل جن باتوں کے کھلے بندوں یا گھروں کے اندر تذکرے کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے تھے وہ آج روز کا معمول بن گئی ہیں! ایسا لگتا ہے کہ ڈور کا سرا اب ہاتھ سے سے نکلا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں گردش آیام یا شامت اعمال نے جس طرح آج مسلمانوں کو جس خطرناک موڑ پر لاکر کھڑا کیا ہے زبوں حالی اور ذلّت و رسوائی پر آنسو نہ بہاتی ہو مسلمانوں کی ذلّت و رسوائی۔ خوارگی، بدنامی، بے عزتی و محرومی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کیا کل بھی مسلمانوں کے احوال و کوائف یہی تھے جو آج ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں انگریزی تہذیب ایک فتنا بار گھٹا بن کر افق عالم پر چھائی ہوئی ہے اور اکثر ممالک میں یورپی تہذیب ایک فتنہ اجتماعی و معاشرتی مفاسد و شرور کی آگ لگی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے کے یہ شرور وفتن کی لو پوری دنیا کو اپنے لپٹ میں لے لے گی اس میں شک نہیں کے ہمارا معاشرہ بری طرح بے حیائی کی لپٹ میں آچکا ہے فحاشی و عریانی کی تندو تیز ہوائیں شرم و حیا کی چادر کو تار تار کر رہی ہیں دور جدید کی خرافات نے غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے اس نام نہاد ترقی نے بے حیائی کو فیشن کا نام دے کر میڈیا کے ذریعے گھر گھر لا دیا ہے مغرب سے بے حیائی کی آنے والی آندھی تہذیب شرم و حیا کو ختم کرنے کے درپے ہے یہی وجہ ہے کے مسلم معاشرے میں بے حیائی و فحاشی کا چلن عام ہو رہا ہے۔