منگلا ڈیم کشمیریوں کی خوشحالی کا ضامن اور منفی پروپیگنڈا

674

اجتماعی سوچ اپنانے اور قومی مفاد کو ترجیح دینے سے ہی اقوام عروج حاصل کرتی ہیں۔ جو قوم ذاتی مفاد اور انفرادی سوچ سے آگے نہیں بڑھ پاتی ہمیشہ زیر بار رہتی ہے۔ منگلا ڈیم قومی سوچ اور قومی مفاد کا عکاس ہے۔ 1960,61 میں اس پر کام شروع ہوا اور چار برس کے مختصر عرصے میں مکمل کیا گیا، 1967 میں منگلا ڈیم سے بجلی پیدا ہونا شروع ہوگئی تھی۔ منگلاڈیم دنیا کا چھٹا بڑا ڈیم ہے۔ آغاز میں منگلاڈیم سے 969میگاوٹ بجلی پیدا کی جاتی تھی اور بعد ازاں اپریزنگ کی گئی اور اب 1500سومیگاوٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ فنی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیم میں پرانی مشینری لگائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ کم میگاوٹ بجلی پیدا کرتا ہے اگر جدید مشینری لگائی جائے تو یہ ڈیم موجودہ پوزیشن ہی میں 3000 میگاوٹ بجلی پیداکرسکتا ہے، ڈیم کی ایسی پوزیشن میں اگر گیٹس کا اضافہ کیا جائے تو ڈبل بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
منگلاڈیم کو میرپور آزاد کشمیر میں تعمیرکرنا اس لیے تجویز کیا گیا تھا کہ کشمیری عوام بھی اس سے بھرپور استفادہ کرسکیں، منگلا ڈیم جہاں پاکستان کو روشن اور سیراب کررہا ہے وہاں کشمیر کو بھی روشن اور قومی آمدنی میں اضافے کا ذریعے بن رہا ہے، ڈیم متاثرین کو برطانیہ نے شہریت دی اس وقت برطانیہ کے پورے کے پورے شہر میرپور کے لوگوں سے آباد ہیں، میرپور آزاد کشمیر میں خوشحالی منگلاڈیم کی تعمیر ہی سے وابستہ ہے، اس وقت برطانیہ کی پارلیمنٹ کے اندر میرپور سے کئی افراد ارکان پارلیمنٹ ہیں ہائوس آف لارڈ کے رکن ہیں برطانیہ کی سٹی کونسل کے رکن ہیں برطانیہ میں 7لاکھ سے زائد کشمیری ہیں جن میں بڑی تعداد میرپور کے لوگوں کی ہے۔ برطانیہ میں عملاً اہل میرپور راج کررہے ہیں۔ یہ ساری سہولت منگلاڈیم کی وجہ سے اہل میرپور کو میسر آئی۔
حکومت آزاد کشمیر اور واپڈا کے درمیان معاہدے کے مطابق آزاد کشمیرکی حکومت کو واٹر یوزیز چارجز میں اضافہ کیا گیا ہے، پہلے 15پیسے تھے جو اب بڑھ کر ایک روپے 15پیسے ہوچکے ہیں، اس حساب سے آزاد کشمیرکو صرف منگلاڈیم کے واٹر یوزیز چارجز کی مد میں سالانہ 12ارب روپے ملیںگے۔ آزاد کشمیر حکومت کو 2.69 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ جو لائف لائن صارفین کے ریٹ 3.95 –7.74 سے بھی کم ہے۔ اس سے قبل یہ ریٹ 1.57روپے ہوا کرتا تھا جو غالباً 15 سال سے زائد عرصے تک لاگو رہا۔ واپڈا کی کمپنیاں تو بجلی پیداواری لاگت کے حساب سے فروخت کرتی ہیں اس لیے پیداواری قیمت اور آزاد کشمیر حکومت سے وصول ہونے والی قیمت میں پایا جانے والا فرق وفاقی حکومت اپنی جیب سے سبسڈی کی مد میں ادا کرتی ہے اس رقم میں اگرچہ ایک تسلسل کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے تاہم وفاقی حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق اکانوے ارب روپے وفاق کو ان کمپنیوں کی ادائیگی کرنی ہے جو چوبیس سو ارب روپے کے مجموعی گردشی قرضے کا حصہ ہے۔
آزاد کشمیر کی وزارت بجلی کے ریکارڈ کے مطابق آزادکشمیر اس وقت ماہانہ بنیادوں پر 15 سے 20 لاکھ یونٹ بجلی خرید رہی ہے جس کے لیے ان تین کمپنیوں کو 25 سے 33 روپے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کے اعدادو شمار کے مطابق ریاستی حکومت ماہانہ بجلی کی مد میں پچاس کروڑ روپے ادا کرتی ہے جبکہ صارفین سے ماہانہ ڈیڑھ ارب روپے سے زائد وصول کرتی ہے باقی ایک ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہوجاتی ہے، سالانہ بنیادوں پرحکومت کو بجلی کی مد میں بیس ارب روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آ زاد کشمیر میں بجلی کی چوری اور ٹرانسمیشن نقصانات 40 فی صد کے لگ بھگ ہیں جو پاکستان کے کسی بھی علاقے سے زیادہ ہیں۔ یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اس وقت وفاقی حکومت آزاد کشمیر حکومت کو سالانہ چالیس سے پینتالیس ارب روپے کی بجلی فراہم کرتی ہے جب کہ وہ محض پانچ ارب روپے میں وصول کر رہی ہے۔
منگلا ڈیم کے دو مقاصد تھے، سب سے پہلا اور بڑا مقصد پاکستان کے لیے آبی ذخیرہ بنانا تھا تاکہ پاکستان کے زرعی شعبے کی پانی کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے دوسرا اس سے سستی بجلی پیدا کی جا سکے، اس طرح پاکستان نے یہ تسلیم کیا کہ آزاد کشمیر کے دریائوں میں بہنے والے پانی کی ملکیت حکومت آزاد کشمیر کی ہے۔ اگر پاکستان اس پانی کو استعمال کرے گا تو وہ اس کی قیمت ادا کرے گا۔ یہ قیمت وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی۔ تاہم رائج الوقت معاہدے کے تحت 42 پیسے فی کیوبک فٹ کے حساب سے آزاد کشمیر حکومت کو وفاقی حکومت ادائیگی کررہی ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کے اعدادو شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران اس مد میں آزاد حکومت کو ستر کروڑ روپے ملنے کی توقع ہے۔ گزشتہ مالی سال بھی اس مد میں ستر کروڑ روپے ہی ملے، دوہزار اکیس میں اڑسٹھ کروڑ روپے، دوہزار بیس میں پینسٹھ کروڑ روپے، دوہزار انیس میں ایک ارب دس کروڑ روپے، دوہزار اٹھارہ میں ایک ارب روپے، دوہزار سترہ میں ایک ارب بیس کروڑ روپے، دوہزار سولہ میں ایک ارب روپے اور دوہزار پندرہ میں چوہتر کروڑ روپے وفاق کی جانب سے دیے گئے۔
منگلا ڈیم سے بننے والی بجلی کی رائلٹی بھی گزشتہ 55 سال سے آزاد کشمیر حکومت کو موصول ہو رہی ہے، یہ رائلٹی آزاد کشمیر حکومت کو سستی بجلی کی مد میں دی جارہی ہے۔ منگلاڈیم بناتے وقت وفاق نے آزادکشمیر کو سستی بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جس پر آج بھی عملدرامد ہورہا ہے۔
دستیاب سرکاری ریکارڈکے مطابق آزاد کشمیر میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب 4سو میگاواٹ تک ہے جو کم زیادہ ہوتی رہتی ہے، بجلی کے ترسیلی نظام کے تحت تین کمپنیاں آزاد کشمیر کو بجلی فراہم کرہی ہیں، بھمبر کے زیادہ ترحصے کو گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی بجلی فراہم کررہی ہیں، میرپور، کوٹلی، پونچھ ڈویژن کو اسلام اباد الیکٹرک سپلائی کمپنی اور مظفرآباد اور اس کے ملحقہ علاقوں کو پشاور الیکٹرک سپلائی بجلی فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان میں تمام علاقوں میں یکساں بجلی کے نرخ منگلا ڈیم کی رائلٹی کی مد میں سستی بجلی کی فراہمی کے قانون کو دبائو کے باوجود پاکستان کے دوسرے ہائیڈل منصوبوں میں یہ مثال نہیں بننے دیا گیا۔ منگلا ڈیم اور صوبہ خیبر پختون خوا کے تربیلہ ڈیم کی رائلٹی اور واٹر چارجز کی شرح کا تقابلی جائزہ لیں تو سستی بجلی کی سہولت کے پی کے کو حاصل نہیں ہے اور واپڈا اس کو عام نرخوں پر ہی بجلی فروخت کر رہا ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ منگلاڈیم کی وجہ سے آزاد کشمیر حکومت بجلی کی پیداواری لاگت کا اوسطاً صرف دس فی صد ادا کرتی ہے اور یہ سہولت کے پی حکومت کو نہیں ہے۔
پوری قوم نے پاکستان کے لیے قربانیاں پیش کیں مقبوضہ کشمیر کے اندر کشمیری آج بھی پاکستان کے لیے قربانیاں پیش کررہے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے آزاد خطے کو بیس کیمپ کا درجہ دیا تھا اور یہاں ایک وزیر اعظم، صدر، عدالت عظمیٰ موجود ہیں پاکستان کی طرف سے وسائل فراہم کیے جارہے ہیں، آزا دکشمیر جو جتنا بجٹ ملتا ہے اگر وہ درست طریقے لگایا جائے تو آزاد کشمیر ترقی میں یورپ کو مات دے سکتا ہے، کرپٹ اور نااہل قیادت نے قومی وسائل کے ساتھ کھلواڑ کیا، ہائیڈل منصوبوں سے جو وسائل مل رہے ہیں اگر وہ درست طور پر لگائے جائیں تو آزاد کشمیر کے ہر گھر تک پختہ سڑک جاسکتی ہے۔ آزاد کشمیر کے عوام کو اگر گلہ ہے تو وہ آزاد کشمیر کی قیادت سے ہے جس نے وسائل کے باجود تعمیر وترقی سے اس خطے کو محروم رکھا۔