ہماری قومی سیاست: نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہیں رکاب میں

485

مشاہد حسین سید مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ہیں۔ انہوں نے ایوان بالا کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اکابرین حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اس لولی لنگڑی حکومت سے بہتر ہے کہ انتخابات کراکے اپنی جان چھڑائیں لیکن اپنے ساتھی کا یہ مشورہ انہیں پسند نہیں آیا۔ انہیں خوف ہے کہ اگر موجودہ حالات میں انتخابات کرائے گئے تو عمران خان بازی لے جائے گا اس لیے اب ان کی تمام تر کوشش یہی ہے کہ خان کا کانٹا کسی طرح نکل جائے اور وہ انتخابات کی آڑ میں اقتدار کے حصے بخرے کرسکیں۔ اس وقت جو گرفتاریاں ہورہی ہیں اس میں بھی یہی حکمت کار فرما ہے۔ تحریک انصاف کے بے باک ترجمان فواد چودھری گرفتار ہونے اور جیل کی ہوا کھانے کے بعد ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں لیکن اب ان کے پیچ ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔ فواد چودھری کے بعد دوسری بڑی گرفتاری شیخ رشید کی ہے یہ صاحب بھی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر عمران خان کے ساتھ شامل ہوئے تھے حالاں کہ عمران خان انہیں ’’چپڑاسی‘‘ لینے کو بھی تیار نہ تھے لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ بندہ بڑے کام کا ہے۔ یہ بڑی دلیری سے تمہارا ساتھ دے گا اور تمہیں مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں سے بچائے گا اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ پھر خان اور شیخ یک جان دو قالب بن گئے اور شیخ رشید خان صاحب سے قومی اسمبلی کی دو نشستیں لے اُڑے۔ حالاں کہ وہ تحریک انصاف کے دو آنے کے رکن بھی نہیں تھے اور انہوں نے عوامی مسلم لیگ کی صورت میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا رکھی تھی۔ کہا جارہا ہے کہ یہی ’’مسجد‘‘ انہیں پھر پناہ دے گی اور وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کے تمام بیانات و اقدامات سے لاتعلقی کا اعلان کرکے وعدہ معاف گواہ بن جائیں گے۔ ویسے بھی شیخ صاحب کی عمر اس وقت 73 سال ہے اور تھانے میں ان کے ساتھ جو بے رحمانہ سلوک ہوا ہے وہ اسے تادیر برداشت نہیں کرسکتے۔ سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جی ایچ کیو سے بھی ان کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ نئی اسٹیبلشمنٹ تیرہ سیاسی جماعتوں کی ملغوبہ حکومت کا بوجھ مزید برداشت نہیں کرسکتی۔ اس حکومت نے شدید اقتصادی بدحالی کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی پچھتر رکنی کابینہ تشکیل دے دی ہے جس کے اخراجات آسمان کو چھو رہے ہیں لیکن اسے کوئی پروا نہیں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر سادگی اور کفایت شعاری ان کی لغت میں شامل نہیں ہے۔ مہنگائی تو عمران حکومت میں بھی عروج پر تھی لیکن موجودہ حکومت نے تو غریب کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے اور لوگ خودکشی پر مجبور ہورہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کا بڑا چرچا تھا لیکن اس نے اپنی تمام شرائط منوانے کے باوجود ایک نئی پخ لگادی ہے، وہ پخ یہ ہے کہ اس معاہدے پر پی ٹی آئی سے بھی دستخط کرائے جائیں کیوں کہ اسے خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی برسراقتدار آنے کے بعد اس معاہدے کو ماننے سے انکار کردے گی۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ اب تو اسٹیبلشمنٹ بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پی ٹی آئی سے کوئی بات منواسکے۔ چناں چہ اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے کہ یا تو موجودہ حکومت کو رخصت کرکے ٹیکنوکریٹس
کی مختصر حکومت قائم کردی جائے یا پھر فوری انتخابات کرادیے جائیں۔ انتخابات فوری طور پر نہ بھی ہوں تو مقررہ وقت پر ان کا ہونا ناگزیر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی موجودہ بحران کا حل انتخابات ہی میں دیکھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے سامنے چار شرائط رکھی ہیں اور ان سے کہا ہے کہ اگر وہ ان چاروں شرائط کو قبول کرتے ہیں تو ہم فوری طور پر انتخابات کرانے کو تیار ہیں۔ شرائط یہ ہیں اوّل: عمران خان اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی تحقیقات سے دستبردار ہوجائیں۔ دوم: ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کا باب بھی بند کردیں۔ سوم: رجیم چینج کی کہانی بھی بھول جائیں اور چہارم: یہ کہ میاں نواز شریف، شہباز شریف اور زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کیس جو اب بند ہوچکے ہیں دوبارہ نہ کھولے جائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران خان نے ان شرائط پر اپنا جواب اسٹیبلشمنٹ کو بھیج دیا ہے۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ قومی مفاد میں اپنے اوپر قاتلانہ حملے کے منصوبہ سازوں کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں اور کیس کی تحقیقات پر اصرار نہیں کریں گے۔ جہاں تک ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کا معاملہ ہے تو اسے ختم کرنے کا اختیار صرف مقتول کی ماں اور بیوی کو ہے، اگر وہ تحقیقات کو جاری رکھنے اور قاتلوں کو انجام بد تک پہنچانے پر اصرار کریں تو اسے روکا نہیں جاسکتا۔ عمران خان نے رجیم چینج اور شریفوں اور زرداری کے کرپشن کیسوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ قومی امور ہیں اور ان کا فیصلہ آنے والی پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔ اب دیکھیے اس جواب پر اسٹیبلشمنٹ کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے کیوں کہ اس کا معاملہ بھی غالب کے اس مصرع سے مختلف نہیں ہے۔
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
لیکن یہ سب ہوائیاں ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ اصل حقیقت کیا ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے بہت جلد جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اس تحریک کا آغاز خود جیل جانے سے کریں گے یا صرف کارکنوں کو جیل جانے پر اُکساتے رہیں گے۔ خان صاحب پاکستان کو سو سال پیچھے لے جانا چاہتے ہیں جب برصغیر میں انگریزوں سے نجات کے لیے جیل بھرو تحریکیں چلا کرتی تھیں اور سب سے پہلے لیڈر اپنی گرفتاری پیش کرتے تھے۔ خان صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خود جیل نہیں جانا چاہتے، کارکنوں کو جیل بھیجنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی میں کارکن ہیں کتنے؟ اس میں تو سب لیڈر ہیں اور باقی تماشائی، تماشائی تو تماشا دیکھتے ہیں خود تماشے میں حصہ نہیں لیتے۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ خان صاحب کی جیل بھرو تحریک بُری طرح ناکام ہوجائے گی اور انہیں سر چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا حکومتوں کی صورت میں ان کے پاس سر چھپانے کی جگہ تھی لیکن ان حکومتوں کو توڑ کر وہ تپتے ہوئے صحرا میں آگئے ہیں۔ ان کی مثال اس بڑھیا کی سی ہے جو سوت کاتتی ہے اور پھر اسے اپنے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے۔ یہ دونوں حکومتیں خان صاحب کے لیے شجر سایہ دار کی مانند تھیں جہاں انہیں ہر طرح کا تحفظ حاصل تھا۔ اب اگر وفاقی حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنا چاہے تو انہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ خان صاحب کی سیاست پر بھی غالب کا یہی مصرع صادق آتا ہے۔
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
خان صاحب پر کیا موقوف ہماری پوری قومی سیاست اسی مصرع کی زد میں ہے۔