میری مرضی

608

اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے، مگر یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ مہنگائی کی اصل وجہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے زیادہ مقامی حکومتیں ہیں، عملہ کام چور ہے اور افسران تساحل پسند ہیں، اچھے وقتوں میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور بلدیہ کے اہلکار بازاروں میں گھوم پھر کر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے، جو دکاندار یا ریڑھی والا زیادہ قیمت طلب کرتا اسے موقع پر ہی جرمانہ کیا جاتا تھا اس لیے دکاندانوں کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ قیمتوں میں اضافہ نہ کریں۔
گاجر سردیوں میں کچی بھی کھائی جاتی ہے، سبزی بھی بنائی جاتی اس کا حلوہ اور مربع بھی بنایا جاتا ہے جسے گھر کا ہر چھوٹا بڑا بڑے شوق سے کھاتا ہے گاجر کی قیمت گزشتہ برسوں سے بہت زیادہ ہے، مگر دکانداروں نے اپنے اپنے نرخ مقرر کر کے مزید مہنگی کر دی ہے، کوئی دکاندار اور ریڑھی والا 20روپے کلو، کوئی25 یا 30روپے کلو فروخت کررہا ہے۔ سو: مرضی کے نرخ لگانے میں کوئی دقت محسوس نہیں کی جاتی، اسی طر ح پالک میتھی اور مولی کی قیمتوں کا بھی یہی حال ہے ادرک ہر گھر کی ضرورت ہے، اسے سالن میں بھی ڈالا جاتا ہے اور گھٹنوں کے درد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، کوئی بدہضمی یا دیگر امراض میں استعمال کرتا ہے، نزلہ زکام میں اس کی چائے بنا کر پی جاتی ہے مگر اس کی قیمت بھی دکان دار اپنی مرضی سے وصو ل کر رہے ہیں۔ مگر عشرت کہہ خسرو کے مکینوں کی صحت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ ہم ادرک لینے گئے تو دکاندار نے اس کی قیمت 120روپے پائو بتائی دوسرے دکاندار نے 110اور تیسرے دکاندار نے 100روپے بتائی اسی طرح دیگر سبزیوں کا بھی یہی حال ہے، آلو 40روپے بھی بک رہا ہے، 30روپے بھی بک رہا ہے اور 25روپے کلو بھی بک رہا ہے اور یہ سارا تماشا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اپنے دفاتر سے نکلنا کسر شان سمجھتے ہیں سو ٹانگ پہ ٹانگ رکھے اپنے عشرت کدے میں اونگتے رہتے ہیں اور بلدیہ کے اہلکار اپنا کمیشن لے کر خاموش ہو جاتے ہیں۔
یہ کیسا ظلم ہے کہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو ہر سال ایک نئی کار دی جاتی ہے۔ پٹرول بھی مفت دیا جاتا ہے، عزیز و اقارب اور گھریلو ملازم بھی استعمال کرتے ہیں، سو مال ِ مفت دلِ بے رحم کا تماشا دیکھنے میں آتا رہتا ہے، اس وقت پاکستان میں 800سے زائد ڈپٹی کمشنر ہیں جنہیں ہر سال ایک نئی لگژری کار دی جاتی ہے، اور پٹرول پر کئی ارب روپے خر چ آتا ہے، جس کا بوجھ غریب آدمی پر ڈالا جاتا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران کو ہر سال نئی کار اور مفت پٹرول کیوں دیا جاتا ہے، ڈاکٹر اور پروفیسر بھی وہی پے اسکیل لیتے ہیں مگر انہیں یہ سہولت حاصل نہیں، یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ جو ملک عدل و انصاف اور اسلامی نظام کے لیے معرض وجود میں آیا تھا وہاں انصاف نام کی کوئی چیز ہی نہیں، البتہ تحریک انصاف ڈٹ کر کھڑی ہے، کیونکہ عدلیہ نے تحریک انصاف کو ریلیف دینا اپنا مشن بنا لیا ہے، ڈاکٹروں، پروفیسروں کو یہ سہولتیں اور مراعات اس لیے نہیں دی جاتیں کیونکہ پاکستان پر قبضہ گروپ کی حکمرانی ہے، یہ گروپ پاکستان میں علاج کراتا ہے نہ تعلیم حاصل کرتا ہے ابتدائی تعلیم نجی اسکولوں سے حاصل کی جاتی ہے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونی ممالک کا رُخ کیا جاتا ہے۔
مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان پر بوجھ سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ طبعاً جمہوریت پسند ہیں، سو: مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے ایسے حالات پیدا کیے کہ وہ الگ ہو جائیں بالآخر یہ سوچ کارگر ثابت ہوئی اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنہیں بھکاری سمجھا جاتا تھا وہ ایشا کی طاقتور معیشت بن گئے ہیں اور ہم دیوالیہ ہونے کے اتنے قریب آچکے ہیں کہ کسی بھی وقت دیوالیہ ہونے کا اعلان ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف قوم کے غم میں خاصے دبلے ہو رہے ہیں، دن رات آنسو بہاتے رہتے ہیں، مگر ان کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات سے گریزاں رہتے ہیں، مہنگائی ایسا مسئلہ نہیں جس پر قابو نا پایا جاسکے، اگر حکمران طبقہ آئی ایم ایف کے مطالبہ پر غور کرے تو یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ عالمی سود خور پاکستانی عوام کو پاکستان سے بدگمان اور حکومت سے بدظن کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان اور پاکستانی عوام سے ہمدردی رکھتے تو حکمران طبقے، بیورو کریٹ اور دیگر اداروں کے ناجائز اخراجات پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے، مگر وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے، کیونکہ عشرت کہہ خسرو کے مکینوں سے عیش و عشرت کا سامان واپس لے لیا گیا تو پاکستان کی معیشت اتنی مستحکم ہو جائے گی کہ آئی ایم ایف کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
ان دنوں ضمنی اور عام انتخابات کے بارے میں بہت سوچا جارہا ہے اکثریت کی رائے کے مطابق الیکشن نہیں ہوںگے، کیونکہ ملکی حالات اور معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی، عمران خان اور ان کے ہم نوا کہتے ہیں کہ اگر الیکشن وقت پر نہ کرائے گئے تو الیکشن کمیشن اور حکومت ملک سے غداری کے مرتکب ہوںگے اور ان پر آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ اگر ہم دیانتداری سے ملکی حالات کا جائزہ لیں تو احساس ہو گا کہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت کی تشکیل لازمی ہے جو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو اور اپنی خدمات کے لیے کسی صلے کی طلب گار نہ ہو، دیگر سہولتوں اور مراعات کی بھی متمنی نہ ہو۔