ایک ٹارزن کو قید اور دوسرے کی رہائی

560

جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے۔ لفظ ’آپ‘ کی وضاحت کرنے کی مجھ میں تاب نہیں ہے چناچہ قارئین اپنی عقل ودانش کو استعمال کرکے اور اپنی فہم وفراست کو بروئے کار لاکر اِس اہم لفظ یعنی ’آپ‘ کی خود ہی تشریح اور وضاحت کرلیں۔ پہلے والے ’آپ‘ کی کوشش اور خواہش تھی کہ عمران خان کو منظر سے ہٹا دیا جائے تو مُلک میں سیاسی استحکام آجائے گا اور معاشی مسئلے بھی حل ہوجائیں گے۔ ’آپ‘ اپنے خیال میں اگر واقعی ٔ راسخ ہوتے تو عمران خان کی حکومت کو ختم کرکے صاف ستھرے لوگوں پر مشتمل حکومت قائم کرنے کی کوشش کرتے پھر جو نتائج برآمد ہوتے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اُس کی منشا کہلاتی۔ ایک فارسی ناشناس نے ’’آزمودہ را آزمودن جہل است‘‘ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آزمائے ہووں کو آزمانا غلطی ہے جبکہ اِس ضرب المثل کا مطلب و مقصد یہ ہے کہ آزمائے ہوئے لوگوں کی آزمائش کرنے والے جاہل کہلانے کے مستحق ہیں‘ اوّل الذکر کے خیال ہی کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو بات وہی بنتی ہے کہ وہ جاہل ہی کہلاتے ہیں جو خطا پر خطا کیے چلے جاتے ہیں۔
بہرکیف! دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی کورونا جیسے موذی اور مہلک مرض کا شکار ہوگیا تھا تاہم ملک کی گاڑی پٹڑی پر چڑھائی جاچکی تھی۔ مہنگائی پر اگرچہ پوری طرح قابو نہ پایا جاسکا تھا لیکن تجارت میں خسارہ کم ہونے لگا تھا اور حکومت کو ٹیکس کی مد میں خطیر رقم موصول ہونے لگی تھی۔ برآمدات میں اضافے کے باعث زرِ مبادلہ میں بھی بڑھوتی ہونے لگی تھی۔ ٹیکسٹائل ملز رواں ہوگئے تھے اور تعمیرات کا سلسلہ بھی چل نکلا تھا۔ اُن دنوں میں یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی تھیں کہ بعض شہروں میں کارخانے چلانے والے ٹیکنیکی ماہرین اور مزدوروں کی کمی واقع ہو گئی ہے جس کی بناپر بیرونِ ملک کے تاجروں کے آرڈر بروقت مکمل ہونے میں دشواری حائل ہوگئی ہے۔ بڑی صاف بات ہے کہ معیشت کی گاڑی پٹڑی پر رکھی جا چکی تھی اور آہستہ آہستہ وہ چلتی ہوئی بھی نظر آرہی تھی۔ نئے آنے والوں نے پہلے تو گاڑی غائب کی اب وہ پٹڑیاں ہی اکھاڑ پھینکنے میں جُت گئے ہیں اور ’آپ‘ ٹُک ٹُک دیدم دَم نہ کشیدم کے مصداق نظر آرہے ہیں۔
یہ بات وثوق سے کہنا تو بہت مشکل ہے کہ وہ کون سی قوّت ہے جو نوازسریف کو ایک بار پھر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حالات اور نظائر یہی بتلا رہے ہیں کہ نوازشریف کے سر پر حکمرانی کا تاج ڈالنے کے جتن کیے جارہے ہیں۔ نوازشریف اور شہباز شریف کو یہ جان لینا چاہیے کہ آصف علی زرداری کے ہاتھ میں اِن دنوں ایک ایسی سیاسی تلوار آگئی ہے جو دونوں بھائیوں کی گردنوں سے بہت زیادہ دُور نہیں ہے۔ ملک میں جب سیاسی گہما گہمی مچے گی اور انتخابات کے لیے ڈھول تاشے بجیں گے تب زرداری کہیں گے اُن کی پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ’ن‘ والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ جیسے چاہیں حکومت کریں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں لیکن دونوں برادران ہمیشہ کی طرح پھر نکمّے ہی ثابت ہوئے اور عوام کے ساتھ ساتھ اُن بھائیوں نے ملک کا بھی بیڑا غرق کردیا ہے۔ آئے دن غریب مر رہے ہیں اور امیر ڈر رہے ہیں کہ اُن کا مستقبل تاریکی کی طرف بری تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ زرداری کا یہ بیان صرف ایک شعلہ ہی نہیں بلکہ شعلہ جوّالہ ثابت ہوگا۔
ایک ’آپ‘ بظاہر تو پس منظر میں چلا گیا ہے لیکن ملک میں رونما ہونے والے عملی مظاہرے دیکھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ اُس ’آپ‘ کے احباب ہنوز ریشہ دوانی کے سلسلے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ مضمون لکھتے ہوئے مجھے اپنے لڑکپن میں دیکھا ہُوا ایک ڈراما یاد آگیا جو اِس طرح تھا کہ ایک مُلک اپنے پڑوسی مُلک کی سازشوں کا شکار ہوکر انتشار اور انارکی میں مبتلا ہوگیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ملک کا سربراہ انتہائی درجے کا غبّی تھا اور عوام کے حال واحوال سے بے خبر رہتا تھا۔ اُس ملک کی فوج کے سپاہی اور کچھ افسران جو ملک وملّت سے ہمدردی رکھتے تھے وہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو دیکھ کر جُز بُز ہورہے تھے اور چاہتے تھے کہ اُن کا سپہ سالار ملک کے سربراہ سے ملاقات کرکے سپاہیوں اور افسروں کے جذبات اور احساسات سے اُسے آگاہ کرے۔ اِس بات کی خبر سپہ سالار کو ہوگئی‘ اِس سے قبل کہ کوئی جتھا سپہ سالار کے پاس اپنے اغراض و مقاصد لے کر آتا‘ اُس نے حفظ ِ ماتقدّم کے تحت کچھ سپاہیوں اور افسروں سے خطاب کرنے کا ارادہ کرلیا۔ سپہ سالار نے اپنے بیان میں کہا کہ مُلک میں بڑھتی ہوئی بے چینی سربراہ کی نااہلی کے باعث نہیں ہے بلکہ پڑوسی ملک کے چند ایجنٹوں نے ملک میں افراتفری پھیلا رکھی ہے جن کی سرکوبی کرنے کے لیے پولیس کے نظام کو درست کیا جارہا ہے۔ سپہ سالار نے کچھ سپاہوں کو جرأت کے تمغے دیے اور افسروں کو انتہائی کم قیمت میں پلاٹ دینے کا اعلان کردیا۔ اُس نے کہا کہ افسروں کو اُن کے عہدے کے مطابق علاقوں میں زمینیں عطا کی جائیں گی۔ فوج کے وہ عناصر جو تمغے اور زمین جیسے تحائف کو اہمیت دیتے تھے وہ تو سپہ سالار کے اِس اعلان سے شاداں ہوکر بیٹھ گئے لیکن ملک و قوم کا دُکھ درد سمیٹ کر اپنے دلوں میں رکھنے والے سپاہی اور افسران تمغوں اور زمین جیسے تحفوں کو اپنے دلوں میں جگہ نہ دے سکے اور مستعفی ہوکر اپنے اپنے گھروں کو لَوٹ گئے۔ فوج کو افرا تفری کی کیفیت سے نکالنے پر ملک کا سربراہ ازحد خوش ہُوا اور اپنے سپہ سالار کو اُس نے ایک امیر ملک سرکاری خزانے سے خرید میں اُس کی پسند کی جائیدادیں اور اثاثے فراہم کردیے۔ فوج سے دستبردار ہونے والے وہ سپاہی اور افسران جب کبھی باہم بیٹھتے تھے تب کہتے تھے کہ ہمارا دشمن ملک اگر ہمارے سپاہیوں اور افسروں کو یہاں دیے جانے والے تمغوں اور پلاٹوں سے بڑے تمغے اور بڑے پلاٹ دینے کا اعلان کردے تو کیا یہ سب کے سب وہاں جاکر بس جائیں گے۔ یہ گپ شپ سپہ سالار کے کانوں تک بھی جاپہنچی‘ اُس نے اِن خیالات کو نیش کا نام دے دیا اور افسروں اور سپاہیوں کو ماہانہ ملنے والی پنشنوں اور مراعات سے محروم کردیا۔
ویسے اِن دنوں جس شخصیت نے ’آپ‘ کا تاج پہن رکھا ہے وہ پچھلے ’آپ‘ سے قدرے مختلف ہے۔ اُسے بچپن میں کسی کوشش یا کسی جبر کے تحت قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے کسی روایتی مدرَسے میں داخل نہیں کروایا گیا تھا۔ اُس نے مقاماتِ مقدّسہ میں قیام کے دوران بصد شوق کلام مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر رکھی ہے۔ قارئین یہ بات یاد رہے کے محترم جنرل عاصم منیر سے بھی یہی باتیں منسوب ہیں جو مَیں نے اخبارات اور رسائل سے اخذ کی ہیں تاہم ایک مضمون نگار کا کہنا ہے کہ جنرل صاحب تین بھائی ہیں‘ قاسم‘ ہاشم اور عاصم اور یہ تینوں بھائیوں کو حافظ ہونے کا شرف حاصل ہے اور اِسی مناسبت سے اِن کا گھرانہ ’حافظ فیملی‘ کہلاتا ہے۔ بہرکیف! جنرل صاحب نے اپنے بچپن میں قران مجید حفظ کر رکھا ہے یا اُنہوں نے جوانی کی عمر میں پہنچ کر یہ سعادت حاصل کی ہے‘ یہ بات ہم جانتے ہیں کہ جنرل صاحب نے سعودی عرب میں دو یا تین سال کا عرصہ گزارا ہے چنانچہ عربی زبان سے وہ یقینا واقفیت رکھتے ہوںگے اور جو شخص عربی زبان سمجھ سکتا ہے وہ کلام مجید کے مندرجات کو بھی خوب سمجھتا ہوگا۔ مسلم ریاست کیسی ہونی چاہیے اور ایک مسلمان سربراہ کا کیا کردار ہونا چاہیے‘ انسان کی آزادی کا حقیقی تصوّر کیا ہے اور حق تلفی کرنے والوں کو کیا سزا ملنی چاہیے۔ لُوٹ کھسوٹ کرنے اور غبن کرکے مال کھانے والوں کا کیا مقام ہونا چاہیے۔ اِن باتوں کو جو نہ سمجھے اُسے عامی کہتے ہیں۔ جنرل صاحب تو حافظ بھی ہیں اور مجاہد بھی ہیں۔