یہ وقت ہے سر جوڑ کے بیٹھنے کا

363

قوموں پر جب کوئی اجتماعی مصیبت آتی ہے یا وہ کسی آزمائش کا شکار ہوتی ہیں تو وہ پھر اپنے چھوٹے بڑے اختلافات بھلا کر ایک ہوجاتی ہیں اور پھر اس قوم کے لوگ اپنے اتحاد سے اس آزمائش کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آج کی نسل کو تو شاید وہ منظر اور ایمان افروز ماحول کا معلوم نہیں ہوگا جو ہم نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں دیکھا تھا کہ 5اور 6ستمبر 1965 کی درمیانی رات کی تاریکی میں بھارت نے اچانک پاکستان پر حملہ کردیا اور لاہور شہر میں بھارتی فوجیں کافی اندر تک گھس آئیں تھیں اسی دن بھارتی فوج کے ایک افسر نے کہا تھا کہ ہم آج شام لاہور کے جمخانہ میں شراب پی کر فتح کا جشن منائیں گے، بھارتی فوج نے جب یہ دیکھا کہ کہیں بھی پاکستانی فوج نظر نہیں آرہی ہے تو ان کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں ہم چاروں طرف سے گھیرے میں تو نہیں آگئے اور اسی خوف کی بنا وہ تیزی واپس اپنی سرحدوں کی طرف چلی گئیں، ادھر جب ریڈیو پاکستان سے ایوب خان کی ولولہ انگیز تقریر نشر ہوئی تو اس سے قوم کو بھارتی حملے کی اطلاع اور ایک ایمان افروز جذبہ ملا اس سے قبل پاکستانی فوج اپنی پوری تیاریوں کے ساتھ سرحدوں پر پہنچ چکی تھی صدر ایوب کی تقریر کے بعد تو بہت سے لاہور کے شہری بھی اپنی فوجوں کی مدد کے لیے سرحد تک پہنچ گئے تھے جنگ پوری قوت کے ساتھ شروع ہوچکی تھی۔
اس موقع پر نہ صرف پوری قوم متحد ہوئی بلکہ ملک کے تمام سیاست دان بھی ایک ہوگئے تھے تھوڑے دن پہلے ہی کسی بات پر صدر جنرل محمد ایوب خان نے مولانا مودودی کیخلاف سخت قسم کا بیان دیا تھا لیکن پھر ستمبر کی پاک بھارت جنگ میں مولانا خود چل کر ایوان صدر میں ایوب خان سے ملنے گئے اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اسی طرح اور دوسرے سیاستدان بھی حکومت کے ساتھ ہوگئے دوسری طرف پاکستانی قوم بھی مشرقی اور مغربی پاکستاں دونوں صوبوں میں اپنے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔ مجھے مشرقی پاکستان سے آنے والے ایک ساتھی نے بتایا کہ 1965کی جنگ میں بنگالیوں کے جذبات بھی اپنی مثال آپ تھے وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے محلے کے ایک اسکول میں کسی نے یہ اعلان کردیا کہ جو نوجوان بھارت سے لڑنے کے لیے محاز جنگ پر جانا چاہتے ہیں وہ اپنا نام لکھوا دیں وہ کہتے ہیں میں نے یہ دیکھا کہ ہزاروں بنگالی نوجوان بھارت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنا نام لکھوانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے تھے یہی تو وہ جذبہ تھا جسے دیکھ کر پاکستان کے مخالفین اور بالخصوص بھارت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان سے جنگ کرنے کے بجائے اس کو اندر سے کھوکھلا کیا جائے اور پھر ٹھیک چھے سال بعد وہی بنگالی جو پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر بھارت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے نام لکھوانے کے لیے لائن میں لگے تھے وہ اب پاکستانی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے تھے۔ اس جنگ میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ اپنی ذمے داریاں ادا کررہے تھے شاعروں نے انقلابی نظمیں لکھیں موسیقاروں نے ولولہ انگیز موسیقی ترتیب دی گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا دفاعی فنڈ کی اپیل ہوئی تو لوگوں نے دل کھول کر چندہ دیا خواتین نے اپنے زیورات دفاعی فنڈ میں دیے، کاروباری اور تجارتی حضرات نے اور ملک کے سرمایہ داروں نے بھی اپنا حق ادا کردیا اس اتحاد کے نتیجے میں پاکستان یہ جنگ جیت گیا، یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کی نااہلی اور حماقتوں کی وجہ سے میدان میں جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں مذاکرات کی میز پر ہار گئے۔
اس کے بعد قوم کا دوسرا اتحاد ہمیں 1977 میں نظر آیا جب بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے تحریک نظام مصطفی چلائی، اس تحریک کی پشت پر تین وجوہات تھیں پہلی تو یہ کہ قوم کی ایک بڑی اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ 1971میں مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کی ایک وجہ خود بھٹو بھی ہیں کہ یہ اگر جمہوری اصول کی پابندی کرتے ہوئے اسمبلی کا اجلاس ہوجانے دیتے اور مجیب الرحمن کو اقتدار دے دیتے تو ملک بچ جاتا اسی کی وجہ سے عام مغربی پاکستانیوں کے دل میں بھٹو کے خلاف ایک نفرت تو پہلے سے موجود تھی پھر اس میں دوسری وجہ سے اور اضافہ ہوگیا کہ بھٹو کی سات سالہ حکومت ایک انتہائی ظالمانہ حکومت تھی گو کہ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں کچھ اچھے کام بھی کیے لیکن سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں نفرت اتنی شدید تھی کہ یہ اچھے کام بھی اس کی شدت کو کم نہ کرسکے پھر تیسری وجہ یہ ہوئی کہ جب بھٹو نے الیکشن کا اعلان کیا تو پوری قوم پاکستان قومی اتحاد کے جھنڈے تلے متحد ہوگئی اور اس کو یہ موقع مل گیا کہ وہ انتخابات کے ذریعے سے بھٹو کی ظالمانہ حکومت سے چھٹکارا حاصل کرلے لیکن اس انتخاب میں سرکاری سرپرستی میں غنڈہ گردی کرکے خود کو اور اپنے چاروں وزرائے اعلیٰ کو بلا مقابلہ اس طرح کامیاب کرایا کہ اپنے مخالف امیدواروں کو اغوا کراکے انہیں کاغذات نامزدگی ہی داخل نہیں کرنے دیا اس کے بعد پورے ملک میں سرکاری سرپرستی میں دھاندلی کرکے پاکستان قومی اتحاد کو ہرا دیا اور پی پی پی کو جتوا دیا اس کے بعد تو بھٹو کے خلاف جو نفرتیں پہلے سے لوگوں کے دلوں میں تھیں وہ ایک لاوا بن کر پھوٹ پڑیںاور پھر قومی اتحاد کی طرف سے ایک منظم تحریک، تحریک نظام مصطفی کے نام سے چلی بھٹو کو مجبوراً دوسرے انتخاب کے لیے آمادہ ہونا پڑا مذاکرات ہوئے وہ کامیاب بھی ہوئے لیکن بھٹوکی ہٹ دھرمی اور تاخیری حربوں کی وجہ سے ملک میں مارشل لا لگ گیا اور پھر بھٹو حکمرانی سے بھی گئے اور اپنی جان سے بھی گئے۔
اس وقت ہمارا ملک جن آزمائشوں میں گرفتار ہے اس میں مہنگائی بیروزگاری اور دیوالیہ ہونے کے خطرات ہیں ہم بین الاقوامی ساہوکاروں اور سود خوروں کے شکنجے میں آگئے ہیں اس کی وجوہات میں ہمارے وہ سیاستدان ہیں جو اقتدار میں رہے وہ مقتدر قوتیں جو ان کی پشت پر رہیں اور جو کبھی خود بھی برسراقتدار رہیں ان حکمرانوں کے ساتھ پوری قوم بھی اس کی ذمے دار ہے کہ وہ ایسے بدعنوان لوگوں کو بار بار منتخب کرتی رہی جنہوں نے قوم کی دولت لوٹ کر باہر کے بینکوں میں رکھا اور باہر کے ملکوں میں اپنی جائدادیں بنائیں اور پھر ان ہی حکمرانوں نے قوم پر قرضوں کے بوجھ کو بڑھایا عمران خان کو قوم نے منتخب کیا کہ یہ کرپشن کے خلاف ہیں لیکن یہ بھی اپنے دور حکومت میں کرپشن کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لا سکے عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد ان کے خلاف بھی کچھ چیزیں مخالفین لا رہے ہیں لیکن زرداری فیملی اور شریف فیملی کے مقابلے میں کچھ بھی مناسبت نہیں ہے ان دونوں خاندانوں نے اربوں اور کھربوں کی کرپشن کی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ پہلی بات تو یہ کہ پوری قوم متحد ہو اور آنے والے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو دوسرے یہ کہ ان دونوں خاندانوں کو چاہیے کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت کا کم سے کم پچاس فی صد قوم کو واپس کردیں اور تیسری تجویز یہ ہے ہمارے وہ پاکستانی مڈل کلاس کے سرمایہ دار جنہوں نے اپنے گھروں میں یا باہر کے بینکوں میں ڈالر جمع کرکے رکھے ہیں وہ ان ڈالروں کو پاکستان کے بینکوں میں رکھ دیں۔ آج کل آئی ایم ایف کی ٹیم مذاکرات کے لیے آئی ہوئی ہے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط لینا ہے جس کے لیے بقول احسن اقبال کے کہ ناک سے لکیر کھنچوائی جارہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب آئی ایم ایف قسط جاری کرے گا اس وقت دوست ممالک بھی اپنے وعدے پورے کریں گے اب تو آئی ایم ایف کی ٹیم نے گریڈ 17سے 22تک کے سرکاری ملازمین کی مراعات اور ان کے اثاثوں کی تفصیل مانگی ہے ہوسکتا ہے وہ فوج کے بجٹ کی تفصیل بھی مانگیں، اس معاشی بدحالی کے ساتھ دوسری طرف پاکستان شدید دہشت گردی کی زد میں ہے
پشاور مسجد کے دھماکے میں سو افراد شہید ہوئے ہیں یہ وقت آپس میں اختلافات بڑھانے کا نہیں ہے، ابھی ہم یہیں تک پہنچے تھے یہ خبر نظر سے گزری کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس 7فروری کو بلائی ہے اور اس میں عمران خان کو بھی دعوت دی ہے عمران خان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا وہ کچھ متذبذب ہیں میرا خیال ہے کہ عمران خان کو اس میں شریک ہونا چاہیے کیونکہ یہ وقت ہے سرجوڑ کر بیٹھنے کا۔