پشاور دھماکا‘ آئی جی اور معلوم نامعلوم

495

کے پی کے پولیس سربراہ نے غالباً جسارت کا مطالعہ کرلیا اور سماجی ذریعہ ابلاغ واٹس ایپ پر یہ ویڈیو بھی ملاحظہ فرمالی جس میں افغان وزیر حیرت کا اظہار کررہا ہے کہ کئی عشروں کے دوران ہم نے ایسی خودکش جیکٹ نہیں دیکھی جس سے اتنی بڑی تباہی ہوجائے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ دس کلو دھماکا خیز مواد مسجد میں کیسے آگیا اور یہ کہ حملہ آور مسجد میں پہلے سے تھا یا بعد میں خودکش جیکٹ پہن کر کیسے آگیا۔ آئی جی پولیس نے تمام سوالات کا جواب دینا ضروری سمجھا کیوں کہ صوبے کی پولیس کے جوانوں نے مظاہرہ کیا اور یہ نعرہ لگایا ہے کہ یہ جو نامعلوم ہیں ہم کو سب معلوم ہیں۔ آئی جی معظم جاہ انصاری نے بڑے درد دل کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کی ہے جس میں انہوں نے افغان وزیر کے الزامات، اخبارات اور تجزیہ نگاروں کے سوالات اور تمام شبہات کا جواب تو دے دیا لیکن یہ پھر بھی نہیں بتا سکے کہ ریڈ زون میں اتنا بڑا سانحہ کیونکر ہوگیا۔ آئی جی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے جوانوں کو گمراہ کرکے احتجاج پر نہ اُکسایا جائے۔ لاشوں پر سیاست نہ کی جائے۔ آئی جی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وردی والے اہلکاروں کا مظاہرہ کس نے منظم کیا اور اس کے کیا مقاصد تھے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ باوردی اہلکار مظاہرہ کریں اور آئی جی منصب پر برقرار رہ جائے یہ تو نہایت خوفناک علامت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لاشوں پر سیاست نہ کی جائے۔ لیکن لاشوں پر سیاست تو پہلے ہی دن شروع ہوگئی تھی جب پی ٹی آئی نے دہشت گردی کا سارا الزام پی ڈی ایم پر ڈال دیا اور پی ڈی ایم والے کہہ رہے ہیں کہ قوم سوال کررہی ہے کہ دہشت گردوں کو کون واپس لایا۔
پشاور میں سو لوگ جان سے گئے دو سو سے زائد زخمی ہوگئے اور پاکستانی حکمران سیاستدان لاشوں پر سیاست کررہے ہیں اور آئی جی صاحب بھی کسی نہ کسی کی سیاست کا حصہ بن رہے ہیں۔ آئی جی سے توقع یہ کی جانی چاہیے تھی کہ وہ قوم کو بتاتے کہ مجرم کون لوگ ہیں اعترافی بیانات کی کیا حقیقت ہے اور کب تک پولیس مجرموں کو پکڑنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ ان کے بقول پولیس مجرموں کے بہت قریب ہے۔ کتنا قریب اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکے افغان وزیر نے جو بھی کہا اس کا جواب انہیں نہیں دینا چاہیے تھا۔ یہ دفتر خارجہ کا معاملہ تھا۔ انہوں نے بھی اور پولیس کے ذرائع نے متضاد باتیں بتائی ہیں کہ حملہ آور پہلے سے موجود تھا۔ حملہ آور ایک دفعہ آیا پھر پولیس وردی پہن کر آیا اور زبردست بات آئی جی صاحب نے فرمادی کہ اس کی وردی دیکھ کر پیٹی بند بھائیوں نے تلاشی نہیں لی اور جانے دیا۔ ارے اگر پولیس پیٹی بند بھائیوں کے ساتھ اسی طرح تعاون کرتی رہے گی تو ایسے ہی واقعات ہوتے رہیں گے۔ آئی جی صاحب کی اس دلیل پر تو عوام کو احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہیے کہ پیٹی بند دہشت گرد کو اجازت دے دی اور موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر عام شہری کو مار مار کر درگت بنادی جاتی ہے۔ ملک میں خرابی کی جڑ یہی وی آئی پی کلچر ہے جس کی وجہ سے رنگین شیشوں والی ایک کروڑ کی گاڑی کو دیکھ کر پولیس والے منہ دوسری طرف کرلیتے ہیں ورنہ نیوی افسر کی بہن ڈی ایس پی کو سرعام تھپڑ مار دیتی ہے اور پولیس بالآخر معاملہ رفع دفع کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ عام آدمی کو گاڑی نہ روکنے پر گولی بھی مار دی جاتی ہے۔
جہاں تک پولیس والوں کے مظاہرے کا تعلق ہے باوردی پولیس اہلکاروں کے مظاہرے یوں ہی نہیں ہوجاتے اگر ایسا ہوتا تو پاک فوج کے جوانوں نے کبھی مظاہرہ نہیں کیا۔ اور پولیس کا مظاہرہ تو مضحکہ خیز ہے۔ جو پولیس یہ جانتی ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں انہیں وہ معلوم ہیں تو ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا۔ یہ نعرہ خوامخواہ تو نہیں لگایا گیا تھا۔ البتہ ایک خطرہ یہ ہے کہ اس سارے جھگڑے کا رُخ ان تحریکوں کی طرف موڑا جائے گا جو کہیں نظر نہیں آتیں صرف اعترافی بیانات اور دعوئوں کے پیغامات کے ذریعے نظر آتی ہیں۔ اور ایسے دشمن کے پیچھے دوڑیں گے تو پہلے کی طرح دوڑتے ہی رہیں گے۔ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کو آمنے سامنے کھڑا کرنے میں آسانی ہوگئی ہے۔ جس قسم کے بیانات پاکستانی وزرا نے دیے ہیں اور افغان حکومت نے جو جواب دیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کو اس جانب دھکیلا جارہا ہے۔ ظاہر ہے افغانستان کے سامنے پاکستان کو کھڑا کرنے کا کام امریکا ہی کررہا ہوگا۔ لیکن امریکا سمیت ایسا کرنے والے سب جانتے ہیں کہ حال ہی میں امریکا افغانستان میں خود شکست کھا چکا ہے تو دوسری کو ن سی طاقت افغانوں کو شکست دے سکتی ہے۔ ملک کی سیکورٹی مضبوط ہونے کے دعوے تو اس ایک دھماکے کے ساتھ ہی اڑ گئے لیکن اب نئی پابندیاں اور نئے آپریشن سے کیا ہوگا۔ ایک مرتبہ قوم کو پچھلے آپریشنوں کے نتائج اور اخراجات دونوں سے آگاہ بھی تو کیا جائے۔ اور یہ بھی بتادیا جائے کہ کس گرو، افراد یا ملک کو کب تک مجاہد اچھا اور پاکستان کا دوست کہنا ہے اور کب سے انہیں دہشت گرد، خراب اور پاکستان دشمن کہنا ہے۔ پاکستانی قوم اس مخمصے میں بھی ہے۔ پچپن سال کشمیری مجاہدین رہے اور جنرل پرویز کے آنے کے کچھ عرصے بعد دہشت گرد ہوگئے۔ یہ فارمولے کون تبدیل کرتا ہے۔