!!!!پرویز مشرف حاضر ہو

962

سابق فوجی سربراہ اور کئی برس ملک کے صدر رہنے والے جنرل پرویز مشرف دبئی میں طویل عرضہ علیل رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔ وہ 2016 میں عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد دبئی چلے گئے تھے اور چند ہفتوں میں واپسی کا وعدہ پورا نہ کرسکے۔ بالآخر موت ہی انہیں وطن واپس لے آئی۔ 2019 میں انہیں خصوصی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی تھی جو ایک ماہ بعد لاہور ہائی کورٹ نے ختم کردی تھی۔ جنرل پرویز غالباً پاکستان کے واحد جرنیل تھے جنہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ آئین پامال کیا ان کے مخالف بظاہر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ تھے اور حکومت میں رہے یہ جنرل پرویز کے مخالف سمجھے جاتے تھے ان کے بعد عمران خان بھی حکومت میں رہے لیکن انہیں ملک واپس بلاکر مقدمات مکمل کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ جنرل پرویز مشرف کا نام آتے ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی، جامعہ حفصہ، لال مسجد، جسٹس افتخار محمد چودھری، 12 مئی کراچی کے شہداء اکبر بگٹی اور کشمیری مجاہدین اور مقبوضہ کشمیر کی خون سے رنگین زمین کے ساتھ ساتھ افغانستان کا تورا بورا سب ایک ساتھ فلم کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں آجاتے ہیں۔ یہ تمام واقعات اپنے اندر بہت سے ثبوت لیے ہوئے ہیں لیکن یہ ثبوت اور عدالتی کارروائی کبھی یکجا نہیں ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کو دوسری جانب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بھرپور تعاون کے ساتھ کسی بھی ایسے انجام سے بچائے رکھا جس کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ میں کسی سابق جرنیل کو بھی سزا کی مثال سامنے آجائے۔ اس اعتبار سے پاکستان کی سیاسی قوتیں اور عدالتیں ناکام اور اسٹیبلشمنٹ کامیاب ہوگئی۔ جنرل پرویز کا دور نہایت سنگین تنازعات اور پاکستان میں غیر ملکی فوجی مداخلت کے لیے ایک آسان دور تھا۔ ان کے دور میں امریکی بلیک واٹر کے کمانڈوز کو پاکستان آنے کا موقع ملا۔ ان ہی کے دور میں امریکیوں نے افغانستان پر حملے کیے پاکستان کے راستے امریکی افواج اور ان کا اسلحہ افغانستان گیا۔ پاکستان کو بالکل اسی طرح افغانستان کا دشمن بنادیا گیا تھا جس طرح آج بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کرنے کا اعتراف وہ خود کرچکے۔ کراچی میں 12 مئی کی فائرنگ اور ایم کیو ایم کے ہاتھوں خون کی ہولی کو وہ عوامی طاقت قرار دے چکے۔ اکبر بگٹی کے قتل کے بارے میں پہلے ہی اعلان کرچکے تھے کہ ایسی جگہ سے گولی آئے گی کہ پتہ بھی نہیں چلے گا اور پاکستانی قوم اور تمام اداروں میں امریکا کا رعب ڈالنے کا کارنامہ بھی ان ہی کے اعزاز میں تھا کہ ہر بار ڈراتے تھے اگر امریکا کی نہ مانتے تو وہ ہمارا تورا بورا بنادیتا۔ جنرل پرویز مشرف سمیت ہر ذی روح کو ایک دن اللہ رب العزت کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اب ان کی موت کے بعد ایک بحث چل پڑی ہے کہ ان کی فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں ان کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے یا نہیں۔ ایسے معاملات کے لیے یہی پیغام دیا جاسکتا ہے کہ اب وہ اللہ کی عدالت میں پہنچ گئے ان کے مردود یا مغفور ہونے کے فتوئوں کے بجائے یہ یقین کرلیں کہ اب یہ گزر گئے ان کے لیے یہ اصول بنالیں یا اس آیت سے اصول وضع کرلیں کہ
وہ ایک گروہ ہے کہ گزر گیا، ان کے لیے ان کی کمائی اور تمہارے لیے تمہاری کمائی ان کے کاموں کی تم سے پرسش نہ ہوگی۔ (البقرہ)
اس کی روشنی میں ہمیں اب ان کے بارے میں رائے زنی سے پرہیز کرنا چاہیے اور اس امر کی فکر کرنی چاہیے کہ جو حکمران ہیں وہ کیا کریں اور عامۃ الناس کیا کریں۔ البتہ ان کے کام اچھے یا برے باقی رہیں گے جس طرح ایک دنیا حجاج بن یوسف کو قرآنی اعراب کے کارنامے اور محمد بن قاسم کی وجہ سے جانتی ہے اور اس کو احسان سمجھتی ہے اور بہت سے لوگ اسے ایک ظالم حکمران کے طور پر جانتے ہیں حجاج کا معاملہ بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہی کیفیت جنرل پرویز کے معاملے میں ہے۔ پاکستانی قوم کو سماجی ذرائع ابلاغ، واٹس اپ، ٹویٹر وغیرہ کا جھنجھنا ابھی نیا نیا ملا ہے جس کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگ بے کار بحث میں الجھ جاتے ہیں اس رویے کو چھوڑ کر آگے بڑھیں۔ البتہ ایک اتفاق ہے کہ جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سزا سنائی گئی تو انہوں نے اپنے خلاف قدم اٹھانے والے تمام لوگوں کا معاملہ اللہ کے حوالے کیا تھا۔ عافیہ کو سب سے پہلے قدم کے طور پر امریکیوں کے حوالے کرنے والے جنرل پرویز مشرف کے لیے اس بڑی عدالت سے پیشکار نے آواز لگادی ہے پرویز مشرف حاضر ہو۔۔۔ اب فیصلہ احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے۔