اللہ خیر کرے

324

30جنوری پیر کی دوپہر ایک بج کر 40 منٹ پر اس وقت جب نمازِ ظہر ادا کی جا رہی تھی خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس لائنز کے علاقے میں واقع مسجد کے اندر ہونے والے بم دھماکے میں سوکے قریب افراد شہید اور دوسو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ علاقہ ریڈ زون میں شامل ہے۔ اس علاقے میں گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ، کور ہیڈ کوارٹرز اور اہم دفاعی تنصیبات شامل ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے پہلے اس بم دھماکے کی ذمے داری قبول کی اور بعد میں یہ کہتے ہوئے لا تعلقی کا اعلان کردیا ’’ہمارے دستور کے مطابق مساجد، بازاروں، عوامی مقامات اور جنازہ گاہ میں کسی قسم کی کارروائی قابل مواخذہ جرم ہوگی۔ پشاور پولیس لائن دھماکے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ پختون خوا پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ ’’یہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے کہ بعض کارروائیاں ٹی ٹی پی نہ کرنے کے باوجود قبول کرتی ہے جب کہ بعض کرنے کے بعد بھی قبول نہیں کرتی‘‘۔ پولیس سربراہ کا یہ کہنا درست ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ٹی ٹی پی نے پہلے حملے کی ذمے داری قبول کی پھر تردیدکردی۔ بعد میں ثابت ہوگیا کہ یہ حملہ ٹی ٹی پی ہی نے کیا تھا۔ خوداحسان اللہ احسان ترجمان ٹی ٹی پی نے گرفتاری کے بعد اس کی تصدیق کی تھی۔
تحریک طالبان پا کستان ایک امریکن پلانٹڈ تنظیم ہے۔ امریکا نے جب خطے میں دہشت گردی کے خلاف بے چہرہ جنگ شروع کی تو پاکستان کے عوام کی ہمدردیاں افغان طالبان کے ساتھ تھیں۔ یہاں اس جنگ کو امریکی قابض افواج کے خلاف جہاد سے تعبیر کیا جارہا تھا جیسا کہ وہ تھی۔ پاکستان میں افغان طالبان کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے امریکا نے تحریک طالبان پا کستان تخلیق کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مساجد پر حملہ کرنے میں کوئی شرم محسوس کرتے ہیں اور نہ نمازیوں کو شہید کرنے میں۔ تحریک طالبان پا کستان ایک لاکھ سے زائد پاکستانی شہریوں کو خود کش بم دھماکوں میں شہید کرچکی ہے جن میں زیادہ تر تعداد نمازیوں اور دیگر مذہبی اجتماعات میں شامل ہونے والے لوگوں کی ہے۔ طالبان نے جہاں فوجی اداروں پر حملہ کرکے ہزاروں پاکستانی فوجی جوانوں کو شہید کیا وہاں ان کی درندگی اور سفاکی کا نشانہ اسکول کے بے گناہ بچے بھی بنے۔ آرمی پبلک اسکول میں گھس کر بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ خواتین اساتذہ کو بچوں کے سامنے زندہ جلایا گیا۔
جولائی 2009ء میں سوات اور فاٹا میں گرفتار ہونے والے طالبان، جن میں افغانی طالبان بھی شامل ہیں، سے بھارتی کرنسی اور اسلحہ کے علاوہ امریکا کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ بھی ملے ہیں۔ امریکا کے ساتھ ساتھ بھارت بھی ٹی ٹی پی کا مددگار اور پاکستان میں دھماکوں میں اس کا معاون رہا۔ 2 نومبر 2009ء کو پاک فوج کے ترجمان اطہر عباس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ وزیرستان میں جاری آپریشن راہ نجات کے دوران بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ دہشت گردوں کے زیر ِ استعمال بھارتی لیٹریچر اور اسلحہ بھی پکڑا گیا ہے۔ یہ شواہد وزارت خارجہ کو بھجوا دیے گئے ہیں تاکہ مناسب کارروائی کی جائے۔ (روزنامہ جنگ 3نومبر2009) اسی ماہ 27نومبر کے جنگ میں پاکستان میں افغانستان کے سفیر نے کہا تھا کہ بھارت ’’وزیرستان میں طالبان کو اسلحہ مہیا کر رہا ہے‘‘۔
بظاہر امریکا اور تحریک طالبان پاکستان ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر حیران کن طور پر پاک فوج کے وزیرستان آپریشن شروع ہوتے ہی ناٹو فورسز نے افغانستان کی طرف کی چوکیاں یکدم خالی کر دیں تھیں تاکہ وہاں سے افغانی وزیرستان میں آسانی سے داخل ہو سکیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا تھا۔ (روزنامہ ایکسپریس 24اکتوبر 2009) اکیس نومبر 2009 کو ہی روزنامہ جنگ میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’پاکستان نے امریکی سی آئی اے کی پاکستان میں سرگرمیوں پر مشتمل ثبوت امریکا کو پیش کیے ہیں۔ اس میں کابل میں سی آئی اے کے ڈائیریکٹر پر واضح کیا کہ کابل میں سی آئی اے کے اہلکار پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی معاونت کر رہے ہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان میں کبھی امریکی سفارتخانے کو نشانہ نہیں بنایا، کبھی کسی امریکی قونصلیٹ پر حملہ نہیں کیا، کبھی کسی امریکی شہری کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ کبھی کسی شراب خانے، زنا خانے اور جوئے خانے اور سینما گھر میں دھماکے نہیں کیے۔ اسی طرح کبھی کسی بھارتی قونصلیٹ، سفارت خانے اور شہری کو ٹارگٹ کیا گیا۔ ان کا نشانہ مساجد اور نمازی ہی بنتے ہیں۔
امریکا پاکستان کو برباد کرنے کے اپنے مرحلے وار پروگرام کی کامیابی کے بہت نزدیک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کا آج اور کل جتنا ان دنوں تباہ حال اور مخدوش دکھائی دے رہا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ ایک طرف آئی ایم ایف نے پاکستان کو اپنے خونیں پنجوں کی گرفت میں اس طرح لے رکھا ہے کہ بقول وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کی ناک سے لکیریں کھنچوائی جارہی ہیں۔ پاکستان کی معیشت کے پر کتر کے اسے زمیں بوس کردیا گیا ہے۔ ایک طرف ڈالر کی اونچی اڑان ہے تو دوسری طرف پاکستان میں گھر گھر فاقے بچھتے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں خطرناک باتیں کی جارہی ہیں۔ دوست ممالک بھی پاکستان سے دامن بچارہے ہیں۔ یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان کا موسم کی خرابی کو وجہ بناکر بھاولپور سے اسلام آباد نہ آنا اسی سمت اشارہ ہے جب کہ ان کی آمد کی خوشی میں اسلام آباد میں تعطیل کا اعلان کردیا گیا تھا۔
امریکا خطے میں بھارت کو بالادست دیکھنا چاہتا ہے جس میں وہ بڑی حدتک کا میاب ہوچکا ہے۔ معیشت کی بربادی کے باوجود پاکستان میں جو تھوڑے بہت کس بل رہ گئے، پاکستان کو اپنی فوج اور فوجی طاقت پر جو زعم ہے وہ اسے دوبارہ دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کر برابرکرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو باہم لڑوانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ پشاور مسجد میں دھماکا ہوتے ہی ایک تواتر سے پاکستانی حکمرانوں کے ایسے بیانات سامنے آنا شروع ہوگئے جن میں انگلیاں افغانستان کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بھی تنازع امریکا اور بھارت کے نقشوں اور منصوبوں میں رنگ بھرنے کے مترادف ہے جس کا فائدہ امریکا اور بھارت کو ہوگا۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت بھارت کے ساتھ امن اور دوستی کے راگ الاپ رہی ہے جب کہ افغانستان کے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف نفرت اور دشمنی پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ افغان طالبان حکومت کو بھی اس معاملے میں اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے۔ وہ ہرگز پاکستان دوست نظر نہیں آتے۔ جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں مسلسل پاکستان مخالف اقدامات کی تائید کررہے ہیں۔ پاک افغان باڈر پر صورتحال تشویش ناک ہے۔ افغان طالبان کے آنے کے بعد امید تھی کہ وہ پاکستان پر حملہ آوروں کو اپنے ملک میں پناہ نہیں دیں گے لیکن ان کے آنے کے بعد پاکستان محفوظ نہیں ہوا۔ وہ پاکستان کے دکھ درد میں شریک نظر آتے ہیں اور نہ ہی پاکستان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں طرف کی قیادت متحد اور یک جان ہوکر امریکی منصوبوں کو خاک میں ملانے کے لیے کام کریں۔