پاکستان پرانی اور پرائی جنگ کا سپاہی؟

622

یادش بخیر امریکا اور پاکستان کے بگڑے ہوئے تعلقات میں اچھائی اور سدھار کے آثار نمایاں ہیں۔ سال بھر پہلے تک یوں لگ رہا تھا کہ سات عشرے سے زیادہ دونوں کے بے نام تعلق کوگہن لگ گیا ہے۔ دونوں کے تعلقات سفارتی اور فوجی سطح پر محدود ہو چکے ہیں۔ سلالہ حملے کے بعد سے شروع ہونے والا تعلقات کے زوال کا سفر رکنے نہیں پائے گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں میں کے دفاعی تصورات میں گہرا تضاد آگیا تھا۔ دونوں کے ہیرو اور ولن تبدیل ہو کر رہ گئے تھے۔ امن اور استحکام کے نظریات میں خاصا فرق آگیا تھا۔ امریکا نے جنوبی ایشیا کو بھارت کے زاویے سے دیکھنا شروع کیا تھا۔ امریکا کا خیال تھا کہ اس خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے دیے کو چاند بنانے اور روشن رکھنے کے لیے بستی کا ہر چراغ بجھانا لازمی قرار پایا تھا۔ بھارت کو بڑا بنانے اور دکھانے کے لیے اس کے ہمسایوں کو چھوٹا رکھنا لازم ٹھیرا تھا۔ اس تصور نے امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس تصور سے اتفاق نہیں کر رہی تھی بلکہ اس کی مزاحمت پر یقین رکھتی تھی۔ نجانے کب یہ منظرنامہ اچانک بدلنے کا آغاز ہوگیا اور پھر یکایک منظر یوں بدلتا چلا گیا کہ امریکا کا تصور تو نہیں بدلا مگر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا منظر ضرور بدلنے لگا۔ مزہ تو تب تھا کہ پاکستان امریکا کے جنوبی ایشیا کے تصورات کو تبدیل کرکے دوستی کا احیاء کرتا مگر افسوس یہ ہے کہ پاکستان نے امریکا کے تصورات کے آگے خودسپردگی کا راستہ اختیار کیا۔ اسی لیے اب یہ باتیں عام ہیں کہ آئی ایم ایف کسی بھی مرحلے پر پاکستانی حکام کے آگے فوج کی تعداد کم کرنے اور ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے
مطالبات کا کاغذ رکھ سکتا ہے۔ ایسے میں امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی پاکستانی ساجد نذیر تارڑ نے انکشاف کیا ہے ری پبلکن پارٹی اس بات کی تحقیقات کررہی ہے کہ امریکا افغانستان سے عجلت میں کیوں نکلا اور اس سوال کے جواب ملنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکا کے عجلت میں بھاگنے کی ایک وجہ پاکستان بھی تھا۔ یہ جملہ خاصا اہم ہے کہ امریکا کے افغانستان سے جلد بازی میں نکلنے کی کی بہت سی وجوہات میں ایک وجہ پاکستان بھی تھا۔ ساجد تارڑ نے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی مگر لامحالہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان برسوں کی دوری اور مخاصمت کے بعد اچانک ایک نقطۂ اتصال قائم ہو گیا تھا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی مگر ایک بار پھر نیم شب کو آنے والی ٹیلی فون کال پر پوچھے جانے والے سوال کہ ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ‘‘ کے جواب میںکسی کمزور لمحے پاکستان نے ایک بار پھر ’’آپ کے ساتھ ہیں‘‘ کہہ کرہاں کر دی تھی دیا۔ شاید یہ عمل اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب سویزر لینڈ میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے ساتھ دو تین دن راز ونیاز میں مصروف رہے اور اس کے بعد پاکستان نے باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت نئی قومی سلامتی پالیسی کا اجر کیا۔ گویا کہ پاکستان نے
حالیہ برسوں کی ساری رنجشیں بھلا کر ایک بار پھر علاقے میں امریکا کی انگلی پکڑ کر چلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ایک ایٹمی طاقت کا پورے کا پورا ساتھ حاصل ہو رہا تھا تو ایسے میں امریکا کو افغانستان میں اپنی فوج مروانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور ایسے میں جب امریکا میں فوجیوں کی قربانی اور انسانی وسائل کے بے مقصد زیاں کی وجہ سے معاشرے میں ایک بے چینی اور ہیجان پھیلتا چلا جا رہا تھا۔ لوگ سوال پوچھ رہے تھے کہ امریکا افغانستان میں اپنے وسائل کو کیوں جھونک رہا ہے اور کیوں اپنے فوجیوں کو قربان کر رہا ہے۔ امریکا کے حکمران اس سوال کے آگے مجبور اور بے بس سے نظر آنے لگے تھے۔ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت اور القاعدہ کی کمر توڑنے کے امریکی دعوے کے بعد تو لوگ زیادہ شد ومد کے ساتھ یہ سوال اُٹھانے لگے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ امریکا پس پردہ پاکستان پر دبائو بڑھائے ہوئے تھا کہ وہ امریکا میں اس کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں معاون کا کردار ادا کرے۔ ماضی میں پاکستان کی سویلین حکومتیں امریکا کے آگے ڈھیر ہوجاتی تھیں اور اسٹیبلشمنٹ شکوہ کناں نظر آتی تھی کہ ہم امریکا کے مقابل کھڑے ہونے پر تیار تھے مگر سویلین حکمران ساز باز کرکے امریکا کے آگے ڈھیر ہوگئے اور یوں امریکا سے تعلقات کے معاملے میں سول ملٹری کشمکش سے پاکستان کی بارگیننگ پوزیشن کمزور ہو جاتی تھی۔ اس بار پہلی بار پاکستان میں ایک سویلین حکمران عمران خان نے امریکا کو فوجی اڈے دینے سے برملا انکار کیا اور امریکا کی جنگ اور مقاصد کا ٹوکرا اُٹھانے سے صاف انکار کیا۔ صرف پرائیویٹ محفلوں ہی میں نہیں بلکہ پبلک مقامات پر بھی وہ اپنے اس موقف کا اظہار کرنے لگے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا نے سول حکومت کو نظر انداز کرکے اس بار اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست مذاکرات اور معاملات طے کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ جس کے نتیجے میں جب اصولی اتفاق رائے ہوئے تو تعاون کے اس راستے پرچلنے سے پہلے ہی رکاوٹ کو دور کرنے کے انداز میں تبدیلی لازمی قرار پائی۔ شاید پاکستان کی طرف سے امریکا کے ساتھ چلنے کے عہد وپیماں ہونے کے بعد ہی امریکا کو افغانستان کو جوں کی توں حالت میں چھوڑ کر اپنا دامن بچانے کا راستہ اختیار کیا۔ امریکا افغانستان سے اپنے فوجی بچا کر لے جا رہا تھا مگر اس کے افغانستان میں جو مقاصد تھے وہ پورا ہونا باقی تھے اور ان مقاصد کی تکمیل کے لیے پاکستان کا کندھا درکار تھا۔ امریکا پاکستان سے ایسے اڈے مانگ رہا تھا جن سے افغانستان میں فضائی کارروائی کی جا سکے۔ امریکا تو فضا سے ڈرون مار کر رخصت ہوجائے گا مگر اس کے بعد ماضی کی طرح ردعمل کا سامنا زمین پر پاکستانی فوج اور معاشرے کو کرنا پڑے گا۔ گویا کہ امریکا اپنی گردن چھڑا کر یہاں پاکستان کو پھنسانا چاہتا تھا۔ خود فضاوں میں دور دور اور پاکستان کو زمین پر ردعمل سہنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ سراسر پاکستان کو دوبارہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں لے جانے کی حکمت عملی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کی حکومت اپنے رویے پر نظر ثانی کرے اور امریکا اور چین کے درمیان کسی کشمکش میں اپنا دامن جنگ اور آگ کے شعلوں سے بچانے کی کوشش کرے۔ امریکا کو اگر کچھ ضمانتیں دی گئی ہیں تو انہیں منسوخ کیا جائے اور کسی کی جنگ کے لیے اپنا کندھا پیش کرنے کے فیصلوں کو ریورس کر کے ملک کو ایک خوفناک کشمکش سے بچایا جائے۔