توسّط واعتدال (حصہ دوم)

455

دین اور شریعت رسول اللہؐ کی اتباع کا نام ہے، اس میں اتنی شدت کہ بار محسوس ہو، مستحسن بات نہیں ہے، اسی طرح تقویٰ بھی وہی پسندہے جو شِعارِ نبوت کے مطابق ہو، مَن پسند معیارِ تقویٰ اختیار نہیں کرنا چاہیے، احادیثِ مبارکہ میں ہے:
’’سیدنا انس بیان کرتے ہیں: تین افراد نبیؐ کی (عبادات کا معمول جاننے کے لیے) ازواجِ مطہرات کے گھروں پر آئے، پس جب انہیں آپؐ کی عبادت کا معمول بتایا گیا، تو انہوں نے اپنی دانست میں اسے کم سمجھا اور کہا: کہاں ہم اورکہاں نبیؐ، آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے مغفرتِ کلی کی قطعی سند عطا فرمادی ہے، ان میں سے ایک نے کہا: میں تو ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اورکبھی وقفہ نہیں کروں گا، تیسرے نے کہا: میں تجرُّد کی زندگی گزاروں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا، (اس دوران) رسول اللہؐ تشریف لائے،آپؐ نے فرمایا: تم لوگوں نے اس طرح کی باتیں کی ہیں، سنو! اللہ کی قسم! بے شک میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خَشیَت رکھنے والا اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں، لیکن میں کبھی نفلی روزے رکھتا ہوں اور کبھی چھوڑ بھی دیتا ہوں، میں راتوں کو نوافل بھی پڑھتا ہوں اور کچھ دیر کے لیے سو بھی جاتا ہوں اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں (سوان کے حقوق بھی ادا کرتا ہوں)، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ میرے (پسندیدہ) طریقے پر نہیں ہے‘‘۔ (بخاری)
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان میں مریضوں اور مسافروں کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت تو دی ہے کہ بعد میں قضا کرلی جائے، مگر روزہ رکھنے کو افضل قرار دیا ہے۔ مزید یہ کہ سفر کے حالات اور تقاضے بھی مختلف ہوتے ہیں، جہاد میں مجاہد کو تازہ دم اور توانا رہنا چاہیے، کسی بھی وقت فریقِ مخالف سے ٹکرائو ہوسکتا ہے، فتحِ مکہ کا سفر رمضان المبارک میں پیش آیا، عزیمت پر عمل کرتے ہوئے بعض صحابہ نے روزہ رکھا ہوا تھا، پھر وہ نڈھال ہوگئے، رسول اللہؐ نے اسے پسند نہ فرمایا:
’’سیدنا جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے (فتحِ مکہ کے) سفر میں لوگوں کی بھیڑ دیکھی، وہ ایک شخص پر سایا کیے ہوئے تھے، آپؐ نے پوچھا: یہ کیا ہے، لوگوں نے عرض کیا: یہ شخص روزے سے ہے (یعنی روزے نے اسے بے حال کردیا ہے)، آپؐ نے فرمایا: (جہاد کے موقع پر) سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے‘‘، (بخاری) ’’سیدنا انس بیان کرتے ہیں: ہم (فتحِ مکہ کے) سفر میں نبیؐ کے ساتھ تھے، ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے چھوڑ دیا، پس ہم ایک دن شدید گرمی میں ایک مقام پر اترے، تو جو روزے دار تھے، وہ گر پڑے، جبکہ روزہ چھوڑنے والوں نے خیمے تانے، جانوروں کو پانی پلایا، تو رسول اللہؐ نے فرمایا: آج روزہ چھوڑنے والے روزے داروں پر اجر کمانے میں سبقت لے گئے‘‘۔ (بخاری) اس کے برعکس نصاریٰ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’انہوں نے رضائے الٰہی کی خاطر رہبانیت کو ایجاد کیا جو ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی، پھر انہوں نے اس کی ایسی رعایت نہ کی جیساکہ اس کاحق تھا‘‘۔ (الحدید: 27) یعنی تعلیماتِ نبوت کو نظر انداز کر کے انہوں نے اپنی عقل سے رَہبانیت کو اختیار کیا، لیکن اس پر پورا نہ اترسکے، پس شریعت کا وہی معیار انسانی فطرت کے لیے سازگار اور عقلِ سلیم کے مطابق ہے جو نبیؐ کی تعلیم کے مطابق ہو، بعض اوقات انسان نیک نیتی سے ایک طریقہ اختیار کرتا ہے، لیکن وہ اس کے لیے مشکلات کا سبب بن جاتا ہے، احادیثِ مبارکہ میں ہے:
’’رسول اللہؐ نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا: ’’عبداللہ! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو، انہوں نے عرض کیا: ہاں! یارسول اللہ!، آپؐ نے فرمایا: تم ایسا نہ کرو، کبھی روزے رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو، رات کو نوافل پڑھا کرو اور کچھ دیر سو بھی جایا کرو، کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، سو تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے تین دن (نفلی) روزے رکھ لیا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا اجر دس گنا عطا فرماتا ہے اور اس طرح تمہیں صائم الدہر (دائمی روزے دار) ہونے کا ثواب مل جائے گا، میں نے (رسول اللہؐ کے اس مشورے پر عمل نہ کیا اور) اپنے اوپر سختی کی تو میرے لیے بھی سختی مقدر ہوگئی، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں اپنے اندر قوت پاتا ہوں، تو آپؐ نے فرمایا: پھر تم اللہ کے نبی دائودؑ کی طرح روزہ رکھ لیا کرو اور بس، میں نے عرض کیا: دائودؑ کا روزوں کی بابت کیا معمول تھا، آپؐ نے فرمایا: ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا، عبداللہ بڑھاپے میں کہتے تھے: کاش کہ میں نے نبیؐ کی دی ہوئی رخصت کو قبول کرلیا ہوتا‘‘۔ (بخاری)
’’رسول اللہ ؐ نے سیدنا سلمان فارسی اور سیدنا ابودرداء میں مواخات کا رشتہ قائم فرمایا، وہ ابودرداء سے ملنے آئے، تو دیکھا کہ (ان کی بیوی) اُمِّ درداء پراگندہ حال ہیں، انہوں نے کہا: تم نے اپنا کیا حال بنارکھا ہے، امِّ درداء نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابودرداء کو دنیاوی حاجات سے غرض ہی نہیں (تو میں کس کے لیے زینت اختیار کروں)، اتنے میں سیدنا ابودرداء آگئے، انہوں نے سیدنا سلمان کو کھانا پیش کیا، سیدنا سلمان نے کہا: آپ بھی کھائیں، سیدنا ابودرداء نے کہا: میں روزے سے ہوں، سیدنا سلمان نے کہا: میں اس وقت تک نہیں کھائوں گا جب تک آپ نہیں کھائیں گے، پھر سیدنا ابودرداء نے کھانا کھایا، پھر جب رات ہوگئی تو ابودرداء نماز پڑھنے کے لیے جانے لگے، سلمان نے ان سے کہا: آپ سوجائیں، (مہمان کے اکرام میں) وہ سوگئے، (کچھ دیر بعد) وہ پھر نماز پڑھنے کے لیے اٹھے، سلمان نے کہا: سوجائو، پھر جب رات کا آخری پہر ہوا تو سیدنا سلمان نے کہا: اب آپ اٹھیں، پھر دونوں نے نماز پڑھی، پھر اُن سے سلمان نے کہا: آپ کے رب کا آپ پر حق ہے، آپ کے نفس کا آپ پر حق ہے، آپ کی بیوی کا آپ پر حق ہے، آپ ہر حقدار کو اس کا حق دیں، پھر سیدنا ابودرداء نبیؐ کے پاس گئے اور آپ کو یہ قصہ سنایا، نبیؐ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہاہے‘‘۔ (بخاری)
الغرض راتوں کو عبادت میں قیام کرنے والوں اور تہجد گزاروں کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمائی ہے، لیکن شریعت نے اس میں غُلُوّ کو پسند نہیں فرمایا، نہ اس بات کو ترجیح دی ہے کہ بندوں کے حقوق کو نظرانداز کر کے محض عبادت گزاری کو کُل دین سمجھ لیا جائے، کیونکہ کسی ایک شعبے کو اعلیٰ معیار پر اختیار کرنے اور باقی شعبہ جات کو ترک کرنے سے دین کی کُلّیت اور کامل بندگی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے، دین توازن، اعتدال اور میانہ روی کا نام ہے۔
اسلام نے اس بات کو بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا کہ اچانک جوش آئے اور کثرتِ عبادت میں مشغول ہوجائیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد فرائض وواجبات اور سنتوں کے تارک بن جائیں، اسلام نوافل میں کثرت وطوالت کے مقابلے میں ہمیشگی کو ترجیح دیتا ہے: ’’سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: درست کام کرو اور نیکی کے قریب تر رہا کرو، جان لو کہ تم میں سے کسی کا (محض) عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا (تاوقتیکہ اللہ کا فضل شاملِ حال نہ ہو) اور بے شک اللہ کی بارگاہ میں ہمیشگی والا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے خواہ وہ تھوڑا ہو‘‘۔ (بخاری)
ہم جب قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہر عہد کے کفار کا ایک شِعار یہ نظر آتا ہے کہ وہ تعلیماتِ نبوت کے مقابلے میں تقلیدِ آباء کو اختیار کرتے تھے، یعنی Status quo کے علمبردار تھے، وہ صحیح و غلط میں تمیز کیے بغیر ماضی کے ساتھ جڑے رہنے کو ترجیح دیتے تھے، جبکہ بندگی کا شِعار یہ ہے کہ جب حق آشکار ہوجائے تو اُسے قبول کرلیا جائے اور سرِ تسلیم خم کیا جائے:
سیدنا مسیَّب بیان کرتے ہیں: وہ نبیؐ کے پاس حاضر ہوئے، آپؐ نے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے، انہوں نے عرض کی: ’’حَزْن‘‘،آپؐ نے فرمایا: تم ’’سَہل‘‘ہو، انہوں نے عرض کیا: میں اپنے باپ کے رکھے ہوئے نام کو تبدیل نہیں کروں گا، پھر وہ کہا کرتے تھے: اس کے بعد ہمارے خاندان کے مزاج میں ہمیشہ سختی رہی‘‘۔ (بخاری) کیونکہ حَزن کے معنی سختی کے ہیں اور سہل کے معنی نرمی کے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں ناموں کی معنویت کا بھی شخصیت پر اثر مرتّب ہوتا ہے، اس لیے اچھے اور بامعنی نام رکھنے چاہییں، البتہ حصولِ برکت کے لیے اگر اکابرِ امت کے نام پر نام رکھا جائے تو اس میں نسبت مراد ہوتی ہے۔ رسول اللہؐ نے اُن کو نام بدلنے کا حکم نہیں فرمایا تھا، بلکہ مشورہ دیا تھا، شریعت کی رُو سے مشورے پر عمل کرنا لازم نہیں ہے، جبکہ واجب پر عمل کرنا لازم ہے، اس لیے رسول اللہؐ اس میں صحابۂ کرام کے لیے گنجائش رکھتے تھے۔
امام غزالی نے لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے جن اخلاقی صفات اور بشری مَلَکات سے انسان کو نوازا ہے، ان میں بھی اِفراط وتفریط نقصان دہ ہے اور توازن واعتدال پسندیدہ ہے، چنانچہ غضب انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے، یہ ایک بہیمی صفت ہے، لیکن جب اسے شریعت کے تابع کردیا جائے تو ملکوتی وصف بن جاتا ہے، اگر غضب میں افراط کیا جائے تویہ انسان کو منتقم مزاج اور جارِح بنادیتا ہے، اِسے تھَوُّر بھی کہتے ہیں، یہ انسان کے اندر بے رحمی پیدا کرتا ہے اور اگر اس میں تفریط کی جائے تو انسان بزدل بن جاتا ہے، لیکن اگر اس میں توازن اختیار کیا جائے تو یہ وصفِ محمود ’’شَجاعت‘ ‘کہلاتا ہے‘‘۔ یہی صورتِ حال ’’اِنفاق‘‘ کی ہے کہ اس میں افراط اِسراف ہے، تبذیر ہے، شیطانی خصلت ہے اور تفریط بخل ہے، لیکن دو انتہائوں کے درمیان توازن اور اعتدال قائم ہوجائے تو اس سے وصفِ سخاوت پیدا ہوتا ہے جو انتہائی پسندیدہ صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر شہوات بھی رکھی ہیں، اس میں افراط بے حیائی، فحاشی، آوارگی اور بے آبروئی ہے، تفریط پژمردگی، اِضمحلال اور توازن واعتدال حیا ہے، عفت ہے، پاک دامنی ہے، رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا سنتِ نبوی ہے اور مقاصدِ شرعیہ میں سے ہے۔