سماعت کے جزیرے میں بھونچال

572

پاکستان کے حوالے سے ایک بزرگ کا تبصرہ ہماری سماعت کے جزیرے میں بھونچال برپا کیے ہوئے ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جو شخص یہ تبصرہ سنے گا اس کی حالت بھی ہم سے مختلف نہ ہو گی۔ بزرگ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مسائل و مصائب کی بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز کے لوگوں نے پاکستان اور اسلام سے بے وفائی کا ارتکاب کیا ہے۔ یہاں یہ وضاحت غیر ضروری نہ ہوگی کہ بزرگ کا تبصرہ عمران خان کے حوالے سے تھا۔ کچھ نوجوان عمران خان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان تھے۔ وہ عمران خان کے کسی بھی غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدام کو نا مناسب تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں تھے۔ اس صورت حال کے پس منظر میں بزرگ نے کہا تھا کہ آپ کچھ بھی کہیں کچھ بھی سوچیں مگر اس حقیقت سے انکار دیدہ دلیری کے سوا کچھ نہیں کہ عمران خان پاکستانی قوم کے لیے بھارت کے مسلمانوں کا شراپ ہیں۔ کیونکہ تحریک پاکستان کے دوران ان لوگوں نے بھی پاکستان کی حمایت کی تھی جن کے رہائشی علاقے پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتے تھے اور یہ بات ہندو دانشوروں کے لیے باعث تکلیف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا ہے ہندوستان میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ انہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔ اور پاکستان معرض وجود میں آگیا ہے اس لیے ایسے لوگوں کا وجود ہندوستان پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ لوگ بھارت کے شہریوں کے اناج کے دشمن ہیں۔
بات تو کسی حد تک ان کی درست ہے مگر ہمارے عدالتی نظام میں انصاف کا مفہوم ہی کچھ اور ہے۔ چند سال پہلے کا قصہ ہے راجستھان کے علاقے سے دو تین سو ہندو بھارت چلے گئے تھے اور وہیں کی رہائش اختیار کر لی تھی۔ ان کی یہ غیر قانونی رہائش بھارتی پولیس کے علم میں آئی تو ان کو پاکستانی قرار دے کر گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ عدالت نے پوچھا کہ کون کون پاسپورٹ کے ذریعے آیا تھا۔ تقریباً دو سو افراد ایسے تھے جو پاسپورٹ بنوا کر پاکستان سے ہندوستان گئے تھے۔ عدالت نے انہیں ہندوستانی شہری تسلیم کر لیا مگر جو لوگ بارڈر کراس کر کے ہندوستان گئے تھے انہیں غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہونے کے الزام میں سزا سنا دی گئی کیونکہ بھارت کا نظام عدل اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے اور ہندوستان ہندؤں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ پاکستان کا نظام عدل اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا حالانکہ پوری دنیا کو اس حقیقت کا علم ہے کہ اسرائیل اور پاکستان دو ایسے ملک ہیں جو مذہب کے نام پر معرض وجود میں آئے ہیں۔ یہودی دنیا کے کسی ملک کا شہری ہو وہ اسرائیل کا بھی شہری ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں اس کے برعکس رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور بدنصیبی یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں ندامت کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ اس پر غور بھی نہیں کیا جاتا۔
یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں کہ پنجاب کے شہر گجرانوالہ کی ایک خاتون نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو درخواست دی تھی کہ اس کے پانچ مرلہ پلاٹ پر ایک بااثر شخص نے قبضہ کر لیا ہے۔ سول کورٹ اور سیشن کورٹ خاتون کے حق میں فیصلہ سنا چکی ہے اور اب قابض شخص نے بہاولپور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔ خاتون کا کہنا تھا کہ اگر وہ پیشی کے لیے بہاولپور گئی تو خدشہ ہے کہ قتل کر دی جائے گی۔ اس خدشے کے پیش نظر خاتون نے استدعا کی تھی کہ اس کا مقدمہ بہاولپور ہائیکورٹ سے لاہور ہائیکورٹ ٹرانسفر کر دیا جائے۔ علاوہ ازیں بہاولپور جانا بھی کار دشورا ہے۔ اس کی مالی حالت ہی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ خاتون نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو یہ بھی باور کرانے کی استدعا کی تھی کہ عرصہ پینتالیس سال سے مقدمہ لڑتے لڑتے وہ ذہنی اور مالی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے۔ اگر اس کا مقدمہ لاہور ہائیکورٹ ٹرانسفر نہیں ہو سکتا تو اسے بھارت جانے کی اجازت دی جائے۔ غالباً خاتون یہ کہنا چاہتی تھی کہ جس ملک میں پانچ مرلہ پلاٹ کا مقدمہ پینتالیس سال سے بھی زیر سماعت ہو اس ملک کی شہریت احمقانہ فعل ہی کہا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں خاتون کو یہ دکھ بھی تھا کہ سول کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیا د پر مقدمہ خارج کر دیا تھا تو سیشن کورٹ نے اپیل کیوں منظور کی اور کئی برس تک پیشی پیشی کے غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل کا کیوں حصہ بنا یا گیا۔ سیشن کورٹ نے بھی عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا تو قابض نے اس کے شہر سے سیکڑوں میل دور بہاولپور ہائیکورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
اصولی طور پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو یہ تحقیق کرانا چاہیے تھی کہ پانچ مرلہ پلاٹ کا مقدمہ پینتالیس برس سے کیوں لٹکا ہوا ہے اور ایک عمر رسیدہ خاتون کو پریشان اور خوف زدہ کرنے کے لیے بہاولپور ہائیکورٹ میں اپیل کیوں دائر کی گئی ہے جبکہ یہ مقدمہ گجرانوالہ کی سول اور سیشن کورٹس میں زیر سماعت رہا ہے۔ اس لیے اپیل لاہور ہائیکورٹ میں دائر ہونا چاہیے تھی۔ اور یہ تحقیق بھی عدل و انصا ف کے عین مطابق ہوتی کہ ایک بے بنیاد مقدمہ کو اپیل در اپیل کی سہولتیں کیوں میسر کی گئیں۔ مگر جسٹس صاحب نے خاتون کی استدعاپر غور کر کے انصا ف فراہم کر نے کے بجائے یہ حکم سادر فرمایا کہ دوسری پارٹی سے بھی یہ استفسار کیا جائے کہ مقدمہ بہاولپور ہائیکورٹ میں چلایا جائے کہ لاہور ہائیکورٹ منتقل کیا جائے۔ اس حکم کا صاف مقصد یہ ہے کہ مقدمہ بہاولپور ہائیکورٹ میں چلایا جائے گا خواہ ایک عمر رسیدہ خاتون کے پاس آمدو رفت کے لیے پیسے ہوں یا نہ ہوں۔ اور جہاں تک اسے قتل ہونے کا خدشہ ہے یہ اس کا ذاتی خیال ہے اور عدالت کسی خیال کی بنیاد پر نہیں ثبوت کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ یہاں پھر یہ سوال کن کھجورے کی طرح ڈسنے لگتا ہے کہ مذکورہ بالا مقدمہ بغیر ثبوت کے کیوں چلایا جا رہا ہے۔