دونکات پر مبنی حکومتی کشمیر پالیسی

588

یوم یکجہتی کشمیر جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ اس دن کو کشمیری آس اُمید اور عزم کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ان کے عزم کی کیفیت کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ ہاں کشمیر کی بیٹیاں جس عزم و ہمت سے بھارتی حکام سے مخاطب ہوتی ہیں۔ اس کا اندازہ زوا شاہ کی باتوں سے ہوتا ہے۔ زوا شاہ کشمیر کے مقبول رہنما الطاف شاہ کی بیٹی اور عظیم رہنما سید علی گیلانی کی نواسی ہیں۔ الطاف شاہ، سید علی گیلانی کے داماد تھے۔ انہیں آخری دفعہ 2017ء میں گرفتار کیا گیا تھا جب سے وہ جیل میں تھے، انتہائی بیمار تھے لیکن زوا شاہ کہتی ہیں کہ جیل حکام نے ان کے خاندان کو اُن کی بیماری کے بارے میں تب تک کچھ نہیں بتایا جب تک اُن کے سارے جسم میں کینسر پھیل نہ گیا۔ انتہائی علیل حالت میں انہیں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کے اہم جسمانی اعضاء ناکارہ ہوچکے ہیں۔ زوا شاہ کہتی ہیں کہ ہم آخری وقت میں بھارتی حکومت سے اپیل کررہے تھے کہ ابو کو کاغذ اور قلم فراہم کیا جائے ابو نے اس کے لیے اشارہ کیا ہے لیکن جیل حکام کا کہنا تھا کہ اس کے لیے اجازت نامہ چاہیے۔ بھارتی حکام نے مرتے ہوئے رہنما کو آخری بات کہنے کے لیے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ یہ ہے ظلم کی وہ کیفیت جس پر انسانیت شرمندہ ہے۔ زوا شاہ کہتی ہیں کہ ہم کاغذ قلم کی اجازت لیتے رہ گئے اور ادھر میرے والد نے آخری سانسیں لیں۔ پچھلے تین سال میں جیل میں دوران حراست کئی کشمیری رہنما فوت ہوگئے ہیں ان سے قبل اشرف صحرائی بھی حراست میں فوت ہوگئے تھے۔ اُن کے اہل خانہ نے بھی بھارتی حکام کے بارے میں بیان دیا تھا کہ انہیں مناسب علاج فراہم نہیں کیا گیا۔ الطاف شاہ کی بیٹی زوا شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ ’’ایک شخص مر رہا ہے وہ اپنوں سے کچھ کہنا چاہتا ہے اس کے لیے قلم کاغذ مانگنا ہے اور حکام کہتے ہیں کہ اجازت نامہ لائو۔ کیا آخری سانس لیتے میرے باپ کو آخری بات ہمیں بتانے کا حق نہیں تھا؟ اور کیا انسانی بنیادوں پر انہیں اپنے گھر میں اپنوں کے ساتھ آخری سانس لینے کا حق بھی نہیں تھا؟
آج بھی تہاڑ جیل میں یاسین ملک، شبیر شاہ اور آفتاب شاہ جیسے کئی کشمیری رہنما قید ہیں۔ انہیں شدید بیماری کے باوجود علاج کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں، ان کی بیٹیاں بھارتی حکام سے اپیلیں کرتی ہیں کہ ان کے علاج کی خاطر انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے لیکن کوئی شنوائی نہیں۔ یاسین ملک کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے ان کی اہلیہ بھی کہتی ہیں کہ بھارت کی حکومت کی قید میں یاسین ملک کو جان کا خطرہ ہے کیونکہ بھارتی حکومت درجنوں کشمیری رہنمائوں کو تشدد کرکے اور قید کے دوران قتل کرچکی ہے۔ بھارتی حکومت کشمیر میں مظالم کا ایک سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن کشمیری پورے عزم کے ساتھ اپنی آزادی کے لیے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ جس قوم میں قربانی کا جذبہ پیدا ہوجائے تو اس کو غلام نہیں رکھا جاسکتا۔ کشمیر کی بیٹیاں زوا شاہ کی صورت میں ایک علامت کے طور پر موجود ہیں۔
کشمیر کے دو حصے ہیں ایک آزاد کشمیر جہاں مکمل آزادی کے ساتھ لوگ آزادی کی سانس لیتے ہیں، دوسرا وہ کشمیر جو بھارت نے بزور قبضہ کر رکھا ہے جہاں مہینوں کشمیری مرد، عورت اور بوڑھے گھروں میں قید رہے، رابطہ کے ذرائع بند ہوگئے۔ آج کل یہ صورت حال ہے کہ گھر پر بھی خوف ہے، لوگ کہتے ہیں بات نہ کرو فون بھی ٹیپ ہورہا ہے، کشمیر میں خوف و دہشت کا ایک خوفناک ماحول ہے، کشمیر میں خوف اور بے یقینی کی فضا کی وجہ وہ قوانین ہیں جو پوری وادی کا نقشہ بدل دینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد غیر کشمیریوں کو جائداد کی خریدو فروخت کی اجازت دے دی گئی۔ انتخاب کے لیے کشمیری ہونے کی پابندی ختم کردی گئی۔ ساتھ ہی ڈومیسائل بھی غیر کشمیریوں کے لیے حد ہٹادی گئی ہے۔ باہر کے لوگ آسانی سے چند سال بعد ڈومیسائل حاصل کر سکتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ چند سال بعد کشمیر کی وادی کی شکل بدل کر رہ جائے گی۔ تجربہ کار بھارتی صحافی انودھابھیس کہتی ہیں کہ آر ایس ایس کا ایجنڈا صرف علاقائی حیثیت بدلنا نہیں بلکہ وہاں کی آبادی کو بے اختیار کرنا بھی ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کی دو ہی پالیسی نظر آتی ہیں ایک خاموشی اور دوسری مذاکرات، جس کے لیے چند دن قبل شہباز شریف العربیہ چینل کو دیے گئے انٹرویو میں متحدہ عرب امارات سے درخواست کررہے تھے کہ مذاکرات کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کیا کشمیر کے سلسلے میں پاکستانی پالیسی کے یہ دو نکات کافی و شافی ہوسکتے ہیں؟