دہشت گردی کی نئی لہر

653

ملک میں معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی نئی لہر نے سب کو خوف زدہ کردیا ہے۔ پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دہشت گردوں نے عین اس وقت دھماکا کیا جب نمازِ ظہر ادا کی جارہی تھی۔ خوفناک دھماکے سے مسجد کی چھت اور اندرونی ہال منہدم ہوگئے بیش تر نمازی ملبے تلے دب گئے اور منگل کی صبح تک 93افراد ہلاک اور 55زخمی ہونے کی خبر تھی۔ دہشت گردی کی اس خوفناک واردات نے پورے ملک کو غم میں ڈبو دیا ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا ہے۔ مساجد میں بم دھماکے کرنے والے مسلمان کیا انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود مسلمانوں کا بہیمانہ قتل قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے اور اللہ کے گھر کو نشانہ بنانے والوں کا اسلام سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اسلام دشمن عناصرکو جب بھی موقع ملتا ہے وہ ہماری اساس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے لیکن اسلام دشمن عناصر روز اول سے اسے تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی فرقہ واریت کے نام پر اور کبھی لسانیت کے نام پر یہاں آگ اور خون کا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے ایک بار پھر یہ دہشت گرد عناصر منظم اور سرگرم ہورہے ہیں۔ پشاور پولیس لائنز مسجد میں دھماکا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے تحت ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے۔ اس سے قبل پشاور ہی میں اے پی ایس میں ہونے والی دہشت گردی نے پوری قوم کو رلا دیا تھا۔
ملک میں اس وقت 30سے زائد سیکورٹی ایجنسیاں فعال ہیں لیکن اس کے باوجود اس طرح کی دہشت گردی کی وارداتیں ایک المیہ ہے۔ قوی شواہد موجود ہیں کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اور بھارت کی ایجنسی را اس میں پوری طرح ملوث ہے۔ حکومت افغانستان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا قلع قمع کریں۔ حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گرد عناصر ایک بار پھر سراٹھا رہے ہیں اور پشاور دھماکے میں ملوث عناصر انسان نہیں سفاک درندے ہیں انہوں نے دین اسلام اور اللہ کے گھر کو نشانہ بنایا اور اسے خون سے نہلا دیا۔ پشاور کی مسجد میں ہونے والا دھماکا ملکی تاریخ کا اندوہناک واقعہ ہے۔ مئی سے دسمبر 2022 تک 636 حملے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے ہیں۔ سیکورٹی ادارے ان دہشت گردوں کے آگے بالکل بے بس ہیں اور عوام کو بے یارومدگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے آرمی پبلک اسکول سانحہ، بنوں جیل، سوات واقعہ اور سی ٹی ڈی بنوں پر قبضے کی تحقیقات ہوتی تو آج پولیس لائنز میں بم دھماکا نہیں ہوتا۔
عوام اپنا پیٹ کاٹ کر فوج، پولیس اور عدلیہ کو دوہزار ارب روپے سے زائد ادا کرتے ہیں لیکن یہ ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں جس کی وجہ سے عوام شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ تمام سیکورٹی حکمرانوں تک ہی محدود ہے اور سیکورٹی ایجنسیاں ناکام ہوگئی ہیں اور سانحہ پشاور سے محسوس ہوتا ہے کہ ر دہشت گردوں نے حکمرانوں کے دروازے پر دستک دے دی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر سیکورٹی صورتحال پر بریفنگ دی جائے۔ پاک افغان بارڈر پر خار دار تاریں لگا دی گئی ہیں تو اس کے باوجود سرحد پار سے کس طرح دہشت گرد حملہ کر دیتے ہیں۔ حکومت نے عوام کو بے یارومدگار چھوڑ دیا ہے پورے ملک میں دہشت گردوں کا راج ہے ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ دہشت گرد عناصر آزادانہ طور پر دہشت گردی میں مصروف عمل ہیں اور کسی کی بھی جان ومال محفوظ نہیں ہے۔ ضرب عضب اور ردالفساد پاکستان کو 400 ارب میں پڑا تھا لیکن اس کے باوجود اس طرح کی دہشت گردی نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دہشت گرد عناصر پاکستان کے دفاع پر مامور اداروں پر حملے کر کے خوف ودہشت کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال پر جامع حکمت عملی ترتیب دے کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے اور وفاق صوبوں کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت بڑھانے میں تعاون کرے۔ پاکستان پہلے ہی معاشی طور پر شدید عدم استحکام اور مہنگائی کا شکار ہے اور اب وہ کسی بھی بڑے نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا اس طرح کی دہشت گردی کے واقعات ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور اس طرح کی دہشت گردی سے قوم کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ قیام امن کے لیے پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے بڑی قربانیاں دی ہیں ان کی قربانیاں ضائع نہیں ہوں گی اور ملک دشمن قوتوں کا جلد قلع قمع ہوگا حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرے اور قیام امن کے لیے ادارے اپنا کردار ادا کریں۔