…!کل جماعتی کانفرنس… ماحول بھی سازگار بنائیے

297

’دیر آید، درست آید‘۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اہم قومی چیلنجز پر تمام قومی سیاسی قائدین کو ایک میز پر بٹھانے کا فیصلہ کیا ہے یہ ملک کی کشیدہ سیاسی فضا میں ایک بڑی سیاسی پیش رفت ہے، سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم نے سات فروری کو کل جماعتی کانفرنس طلب کر لی ہے اور تمام قومی سیاسی قائدین کو کانفرنس کی باضابطہ دعوت دے دی گئی ہے، تحریک انصاف کے سربراہ، سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی مدعو کیا گیا ہے اور وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے تحریک انصاف کے رہنمائوں سابق سپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک سے رابطے کر کے انہیں عمران خاں کے لیے کانفرنس میں شرکت کی دعوت پہنچائی ہے، اس سے متعلق جناب پرویز خٹک کا موقف یہ سامنے آیا ہے کہ ایاز صادق نے دوست کی حیثیت سے دعوت دی ہے، اجلاس میں شرکت کے لیے زبانی کلامی دعوت نہیں دی جاتی، اجلاس میں شرکت کے لیے عمران خاں کو باقاعدہ دعوت نامہ بھیجا جانا چاہئے، عمران خاں تحریک انصاف کے چیئرمین ہیں، ہم بھی ان کی اجازت کے بعد ہی شرکت کر سکتے ہیں، جب کہ ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری ہیں، ایسے میں ان کے ساتھ کیسے بیٹھا جائے۔ جناب پرویز خٹک کا موقف اپنے اندر یقینا وزن رکھتا ہے توقع کی جانا چاہئے کہ حکومت باقاعدہ تحریری دعوت نامہ بھی جلد از جلد تحریک انصاف کے سربراہ تک پہنچانے کا اہتمام کرے گی اور تحریک انصاف بھی قومی مفاد میں کل جماعتی کانفرنس میں شرکت یقینی بنائے اور محض انا اور سیاسی ضد کو اس اہم قومی کانفرنس میں عدم شرکت کا جواز نہیں بننے دے گی، تاہم حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کانفرنس کی کامیابی اور حزب اختلاف کی اس میں شرکت کے لیے ماحول ساز گار بنائے اس وقت جو صورت حال ملک میں پائی جا رہی ہے اس میں جناب پرویز خٹک کا گلہ اور شکوہ بے جا نہیں، حکومت کی جانب سے مسلسل ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں سیاسی انتقام کی بو نمایاں طور پر محسوس کی جا سکے۔ حزب اختلاف خصوصاً تحریک انصاف کے رہنمائوں کے خلاف پے در پے مقدمات کا اندراج اور ان مقدمات کی بنیاد پر گرفتاریاں اور تشدد کی کارروائیوں کا واضح مقصد انہیں دیوار سے لگانا اور سبق سکھانا دکھائی دیتا ہے، پہلے سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری صاحبہ کو پکڑا گیا، پھر شہباز گل اور اعظم سواتی کو سبق سکھانے کی کوشش کی گئی اور انہیں پس دیوار زنداں ہی نہیں بھیجا گیا بلکہ توہین انسانیت کا ہر حربہ بھی ان پر آزمایا گیا اور ان کے ساتھ ایسا شرمناک سلوک روا رکھا گیا جس کی کسی مہذب ملک میں اجازت نہیں دی جا سکتی، اس کے پس پردہ خواہ کوئی بھی ہو مگر ذمہ داری بہرحال حکومت وقت پر ہی عائد ہو گی۔ اسی طرح سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کی گرفتاری اور دوران حراست کالا کپڑا اوڑھا کر عدالت میں پیش کرنے کا کوئی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا، اب سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد زیر عتاب ہیں، جن کا ایک مقدمے میں گرفتاری کے بعد ریمانڈ ابھی جاری ہے کہ ان کے خلاف مری میں ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، تازہ اطلاع یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے خلاف بد زبانی کے الزام میں ایک مقدمہ کراچی میں بھی شیخ رشید کے خلاف درج کرا دیا گیا ہے اور سندھ پولیس ناقابل یقین پھرتی اور مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گئی ہے چنانچہ شیخ رشید احمد کی موجودہ گرفتاری کی ضمانت اگر منظور ہو جاتی ہے تو حکومت نے انہیں سندھ پولیس کے حوالے کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے اتحادی گجرات کے چودھری خاندان اور بیورو کریسی میں ان کے وفادار افسران بھی ایسی کارروائیوں سے محفوظ نہیں۔ ان کارروائیوں کے لیے حکومت اور اس کے وزراء جتنے چاہے دلائل پیش کریں، سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں انہیں سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور ان کی زبان بندی کی کوششوں کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا …!
صورت حال کا یہ پہلو مزید تشویش ناک ہے کہ سیاسی مخالفین تو ایک طرف، ان کی حمایت میں آواز بلند کرنے والے صحافیوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا، انہیں بھی بلا جواز مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، چنانچہ حکومت کی تبدیلی کے بعد بہت سے صحافی تو جلا وطنی پر مجبور ہو چکے ہیں جن میں سے ارشد شریف کو بیرون ملک ہوتے ہوئے بھی جان کی قربانی دینا پڑی جب کہ اندرون ملک موجود حکومت سے اختلاف کرنے والے صحافیوں کو بھی مقدمات اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں جس کی تازہ مثال عمران ریاض خاں کی چند ماہ میں دوسری بار گرفتاری ہے، وہ دوبئی جانے کے لیے ہوائی اڈے پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے، ایف آئی اے نے انہیں حراست میں لے لیا اور عدالت میں پیش کرنے کا لازمی قانونی تقاضا بھی پورا نہیں کیا، چنانچہ ان کے بھائی کی جانب سے درخواست کی سماعت کے دوران جوڈیشل مجسٹریٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی اے کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دیا، جمعۃ المبارک کے روز پیشی پر عدالت نے نہ صرف عمران ریاض کی رہائی کا حکم دے دیا بلکہ ان کے خلاف مقدمہ بھی ختم کرنے کا حکم دیا۔ آزادی صحافت کی دعوے دار موجودہ پندرہ جماعتی حکومت کی جانب سے اس طرح کے اقدامات ملک میں آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کی ایسی کوشش ہے جسے کسی جمہوری ملک میں برداشت نہیں کیا جا سکتا ایسے اقدامات بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی سبکی کا سبب بنتے ہیں، جن سے گریز کیا جانا بہرحال لازم ہے…!
وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد یقینا ایک ایسا اقدام ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور اس کی کامیابی کی صورت میں اندرون اور بیرون ملک قومی وحدت و ہم آہنگی کا موثر پیغام پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں تک پہنچے گا جس کے نتیجے میں ملک میں امن و امان کے ذمہ دار ادار ملکی اداروں اور ان کے اہل کاروں کو بھی ایک نیا حوصلہ ملے گا اور پاکستان کے دشمنوں کے حوصلے اس سے پست ہوں گے، مگر اس کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے لازم ہے کہ حکومت سیاسی عناصر کے مابین خیر سگالی کی فضا کو فروغ دے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے سیاسی انتقام اور نفرت کی بو آتی ہو اور جو کشیدگی میں اضافہ کا سبب بنے۔ اس مثبت فضا کو پروان چڑھانا اور خوشگوار سیاسی ماحول کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، یہ توقع بے جا نہ ہو گی کہ وزیر اعظم شہباز شریف اس ضمن میں خود آگے بڑھ کر ٹھوس اور موثر ہدایات اپنی کابینہ کے ارکان اور افسر شاہی کو جاری کریں گے…!!!