نظریے اور سیاست کو لڑانے والے

785

اسلامی تاریخ میں نظریے اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام جب یہ بتاتا ہے کہ کھانا کس طرح ہے، پینا کس طرح ہے، اٹھنا کس طرح ہے، بیٹھنا کس طرح ہے، شادی کس طرح کرنی ہے، معاش کس طرح کمانی ہے، جماہی آئے تو کیا کہنا ہے، چھینک آئے تو کیا کہنا ہے تو پھر وہ ضرور یہ بھی بتاتا ہوگا کہ ریاست اور سیاست کو کس طرح چلانا ہے۔ مگر جاوید احمد غامدی مغرب کے ایجنٹ کی حیثیت سے مذہب اور سیاست یا نظریے اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرتے رہتے ہیں۔ خورشید ندیم چوں کہ غامدی صاحب کے شاگرد رشید ہیں اس لیے وہ بھی اپنے کالموں میں نظریے اور سیاست کو ایک دوسرے سے لڑاتے رہتے ہیں۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے تاریخی کامیابی حاصل کی تو خورشید ندیم ایک بار پھر متحرک ہوگئے اور انہوں نے اپنے ایک کالم میں نظریے کو سیاست سے اور حافظ نعیم کو جماعت کے نظریے سے لڑا دیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں کیا فرمایا اس کا اجمال انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’کراچی کے عوام نے حافظ نعیم الرحمن کے ایجنڈے کو ووٹ دیے ہیں یا جماعت اسلامی کے نظریے کو؟ گوادر میں لوگوں نے ہدایت الرحمن پر اظہار اعتماد کیا ہے یا جماعت اسلامی پر؟ سیاسیات کے ایک طالب علم کے لیے یہ سوالات بہت اہم ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ ان کی اہمیت جماعت اسلامی کے لیے ہے۔
گزشتہ روز برادرِ محترم ڈاکٹر حسین احمد پراچہ صاحب نے اپنے کالم میں جماعت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دعوت اور سیاست کو علٰیحدہ رکھے۔ استادِ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب نے کم و بیش چار دہائیاں پہلے یہ بات کہی تو شدید تنقید کا ہدف بنے۔ میں نے 1990ء کی دہائی میں ’’اشراق‘‘ میں اس پر تفصیلی مضامین لکھے۔ محترم نعیم صدیقی صاحب نے ایک جوابی مضمون میں یہ بتایا کہ تقسیم کار کی یہ تجویز جماعت اسلامی کی بربادی کا ایک نسخہ ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ تحریک کو داخل سے نقصان پہنچایا جائے۔ یہ مضمون بھی ’’اشراق‘‘ (اپریل 1993) میں چھپا۔ اگر اس وقت اس تجویز پر سنجیدگی سے سوچا جاتا تو آج جماعت کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج، بارِدگر جماعت کی قیادت کو اس کی حکمت عملی پر غورو فکر کی دعوت دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی جب قائم ہوئی تو یہ ایک نظریاتی تحریک تھی جس کے پیش نظر ایک ہمہ جہتی تبدیلی تھی علمی سطح پر اسلام کی تجدید کے ساتھ سیاسی و سماجی تبدیلی بھی جماعت کا ہدف تھی۔ یہ کام تین حصوں پر مشتمل تھا، تحقیق و اجتہاد دعوت اور سیاست۔ ان میں سے ہر کام ایک مختلف حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے۔ جماعت نے انہیں ایک قیادت اور نظم کے تحت کرنا چاہا۔ یوں دعوت، سیاست اور علمی تحقیق کے مختلف مطالبات ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوسکا۔ (روزنامہ دنیا، 24 جنوری 2023ء)
قرآن نے رسول اکرمؐ کو مسلمانوں کے سب سے بڑا نمونۂ عمل قرار دیا ہے اور رسول اکرمؐ کی سیرت مبارکہ کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تو اس کی ہر چیز کو اسلام کے تابع کیا۔ رسول اکرمؐ نے اس ریاست میں جہاد کیا تو اسلام کے مطابق، عدل کا نظام قائم کیا تو اسلام کے تحت، زکوٰۃ اور عشر کے احکامات دیے تو اسلام کی روشنی میں، خارجہ تعلقات استوار کیے تو اسلام کے دائرے میں، خلافت راشدہ کا عہد آیا تو چاروں خلفا نے ریاست اور سیاست کو چلانے کے لیے رسول اکرمؐ کے نمونۂ عمل کا کامل اتباع کیا۔ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی تو آفتاب گویا زرے میں تبدیل ہوگیا مگر ملوکیت میں بھی ریاست کا مجموعی بندوبست اسلام ہی کے تابع رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کے ہر دور میں مسلم مفکرین اور دانش وروں کی عظیم اکثریت نے ہمیشہ ریاست اور سیاست کو اسلام کے ماتحت رکھا۔ امام غزالی نے اپنی معرکہ آرا تصنیف احیا العلوم میں صاف لکھا ہے کہ اسلام میں ریاست و سیاست دین کی پابند ہے۔ ابن خلدون نے اپنے مشہورِ زمانہ مقدمے میں سیاست کو دین کے تابع بتایا ہے۔ الماوردی کے نزدیک بھی سیاست دین کے تابع ہے۔ مجدد الف ثانی نے جہانگیر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو اس کا محرک بھی یہی تھا کہ ریاست اور سیاست دین کی تابداری کریں۔ عہد جدید میں اقبال نے صاف کہا ہے۔
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
٭٭
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
مولانا مودودی عہد حاضر کے مجدد تھے اور ان کی فکر کا مرکزی حوالہ ہی یہ ہے کہ دین ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ ریاست ہو یا سیاست، معیشت ہو یا معاشرت، آرٹ ہو یا کلچر ہر چیز کو اسلام کا تابع ہونا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے لٹریچر کا انبار لگایا۔ اسی لیے انہوں نے جماعت اسلامی قائم کی۔ اسی لیے انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ بنائی۔ اسی لیے انہوں نے مزدور انجمنیں قائم کیں۔ اقبال کے الفاظ میں مولانا مودودی کا مشن یہ تھا۔
مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
قائد اعظم 20 ویں صدی کے مسلم برصغیر کے سب سے بڑے رہنما تھے۔ مفسر قرآن علامہ شبیر عثمانی نے انہیں اورنگ زیب کے بعد برصغیر کی سیاست کی سب سے اہم شخصیت قرار دیا ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ قائداعظم نے پاکستان کے نام سے ایک الگ ملک بنایا تو ایک نظریے کی بنیاد پر، یہ نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں تھا۔ مگر خورشید ندیم نے اپنے کالم میں نظریے اور سیاست کو ایک دوسرے کی ضد کے طور پر پیش کیا ہے۔ جس کا کوئی اسلامی جواز نہ کبھی موجود تھا نہ موجود ہے اور نہ موجود ہوگا۔
نظریے اور سیاست کا باہمی تعلق صرف مسلمانوں کے لیے اہم نہیں۔ سوشلزم ایک انسانی ساختہ نظریہ تھا اور اس نظریے کی بنیاد پر روس میں لینن نے انقلاب بپا کیا۔ اس انقلاب میں 80 لاکھ لوگ مارے گئے مگر لینن نے کسی چیز کی پروا نہیں کی اور انقلاب کو حقیقت بنا کر دکھایا۔ اہم بات یہ ہے کہ روس کا سوشلسٹ انقلاب صرف روس تک محدود نہ رہا، یہ انقلاب درجنوں ملکوں میں برآمد ہوا اور 20 ویں صدی میں آدھی دنیا سوشلزم کے زیر اثر آگئی۔ سوشلزم اگرچہ ایک انسانی ساختہ نظریہ تھا اور وہ مذہب کے سخت خلاف تھا مگر یہ نظریہ مذہب کی طرح جامع بن کر اُبھرا۔ اس نظریے کی ایک کتاب تھی جسے داس کیپتال کہا جاتا تھا۔ اس نظریے کا ایک پیغمبر تھا جسے مارکس کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ سوشلسٹ ریاست اس نظریے کی جنت تھی۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ اس نظریے کا جہنم تھا۔ اس نظریے نے معیشت کا ایک نیا ماڈل پیدا کیا۔ اس نظریے نے ایک نیا ادب تخلیق کرکے دکھایا۔ اس نظریے کی خودپسندی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی سائنس کو بھی صرف سائنس نہیں کہا کہتا تھا بلکہ وہ اسے ’’سوویت سائنس‘‘ کہتا تھا۔ سوشلزم کی بنیاد پر صرف روس میں انقلاب نہیں آیا۔ اس نظریے کی بنیاد پر چین میں بھی انقلاب آیا۔ اس انقلاب میں 3 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے مگر انقلاب کے رہنما مائو نے کسی جانی نقصان کی پروا نہیں کی۔ چین میں بھی سوشلزم تقریباً ایک مذہب بن کر اُبھرا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ بھارت کے عظیم رہنما پنڈت نہرو خود کو سوشلسٹ کہا کرتے تھے۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
بھارت میں سوشلسٹ انقلاب کے روشن امکانات تھے۔ یہ الگ بات کہ بھارت میں کبھی سوشلسٹ انقلاب نہ آسکا۔ البتہ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی نے 30 برس تک بھارتی ریاست بنگال پر بلاشرکت غیر حکومت کی۔ اس حکومت کی باگ ڈور جیوتی باسو کے ہاتھ میں تھی جو ایک نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔
جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد ہی پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنا ہے۔ مولانا مودودی نے اس انقلاب کے لیے جمہوری جدوجہد کے راستے کا انتخاب کیا۔ خورشید ندیم کا یہ خیال درست نہیں کہ نظریے اور عوامی مقبولیت میں کوئی تضاد ہے۔ مولانا مودودی کے زمانۂ امارت میں جماعت اسلامی نے 1970ء کا انتخاب لڑا اور لوگ کہتے ہیں کہ ان انتخابات میں بھی جماعت اسلامی کے پاس صرف چار نشستیں تھیں۔ یہ بات آدھا سچ ہے، یعنی یہ تو ٹھیک ہے کہ ان انتخابات میں جماعت اسلامی نے صرف چار نشستیں حاصل کیں مگر جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں 24 لاکھ ووٹ بھی حاصل کیے تھے جو اس کو انتخابی کامیابی تو نہ دلاسکے مگر ان ووٹوں سے جماعت کی عوامی مقبولیت واضح تھی۔ اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان متحد تھے اور پاکستان کی مجموعی آبادی گیارہ کروڑ تھی اور گیارہ کروڑ آبادی میں صرف نظریے کی بنیاد پر 24 لاکھ ووٹ حاصل کرنا مذاق نہیں تھا۔ چونکہ 1977ء تک ملک میں نظریے کی بنیاد پر ایک کشمکش برپا رہی اس لیے 1977ء تک جماعت اسلامی ایک بڑی نظریاتی قوت ہی نہیں ایک بڑی عوامی جماعت تھی۔ اتنی بڑی جماعت کہ اس کے بغیر تحریک نظام مصطفی کی تحریک کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے نظریے کی بنیاد پر ووٹ کی قوت سے طلبہ کے محاذ کو سر کرکے دکھایا۔ ملک کی اکثر جامعات اور اکثر کالج جمعیت کے زیر اثر تھے۔ اس دائرے میں نظریے اور عوامی مقبولیت پوری طرح ہم آہنگ تھے۔ جماعت اسلامی نے نظریے کی بنیاد پر محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کی اور ریلوے، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز اور شپ یارڈ جیسے بڑے اداروں میں ووٹ کی قوت سے سیاست اور حکمرانی کرکے دکھائی۔ بدقسمتی سے اقتدار پر جنرل ضیا کے قبضے کے بعد نظریات کی سیاست دم توڑ گئی اور اس کی جگہ لسانی، فرقہ وارانہ اور خاندانی سیاست نے لے لی۔ سیاست میں نظریے کی جگہ پیسہ اہم ہوگیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سیاست کا بنیادی حوالہ بن گئی۔ الیکٹ ایبلز کی سیاست کا پرچم بلند ہوگیا۔ چنانچہ جماعت اسلامی کی عوامی اپیل کم ہوگئی۔
جہاں تک کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی تاریخی کامیابی کا تعلق ہے تو یہ اول و آخر جماعت اسلامی کے نظریے کی فتح ہے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کو درپیش تمام مسائل کو نمایاں کیا ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائی ہے مگر حافظ نعیم کی یہ جدوجہد جماعت اسلامی کے نظریے کے تابع تھی۔ کراچی 1960ء کی دہائی سے ایک مظلوم شہر ہے۔ اس شہر سے ملک کا دارالحکومت ہونے کا مرتبہ چھین گیا، یہ شہر ملک کو اس کی آمدنی کا 60 فی صد اور صوبے کو اس کی آمدنی کا 95 فی صد فراہم کرتا ہے۔ مگر وفاق اور صوبہ اس شہر کو اس آمدنی کا پانچ فی صد بھی فراہم نہیں کرتے۔ اس شہر میں پانی کی قلت ہے، اس شہر میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، گٹر ابل رہے ہیں، پورا شہر کچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔ حافظ نعیم نے کراچی کی اس مظلومیت کے لیے آواز بلند کی اور یہ بات اسلام کے عین مطابق ہے اس لیے کہ اسلام مسلمانوں کو ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے اور ان کی مزاحمت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر ظلم کے تحت زندہ نہیں رہ سکتا۔ چیک ادیب میلان کنڈیرا کا فقرہ ہے کہ جبر کے خلاف انسان کی جدوجہد بھول کے خلاف یاد کی جدوجہد ہے۔ جماعت اسلامی کراچی نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں کراچی پر مسلط جبر کی مزاحمت کی ہے اور بھول پر یاد کو فوقیت دے کر دکھائی ہے۔ پورے پاکستان پر مغرب اور اسٹیبلشمنٹ کا جبر مسلط ہے۔ جماعت اسلامی اس جبر کی مزاحمت کرے گی تو پورے ملک میں مقبول بن کر ابھرے گی۔