قرضہ لے قسطوں میں ڈال

585

یہ مشہور جملہ تو ہم سنتے رہتے ہیں کہ قرض کی پیتے تھے مے… اور عموماً یہ پاکستانی حکمرانوں کے قرض مانگنے کے رویے اور عادت کے حوالے سے کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ ملک و قوم کے غم میں گھلے جانے والے ہمارے لیڈر صرف ملک و قوم کی خاطر بھکاری بنے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں لیکن یہ قرض لے کر ضائع کردیتے ہیں۔ ضائع ان معنوں میں کہ جن مقاصد کے نام پر قرض لیا جاتا ہے وہ قرض ان پر خرچ ہی نہیں ہوتا۔ البتہ ہر مرتبہ عوام پچھلے قرض کی قسطیں اور اس سے پچھلے قرض کی قسطوں کا سود ادا کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ بلاول صاحب روس گئے ہیں جس کی افغانستان میں شکست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روس جہاں گیا وہاں سے واپس نہیں آتا لیکن افغانستان سے اس لیے بھاگا کہ اس کے پڑوس میں پاکستان ہے۔ امریکا بھی یہی شکوہ کرتا ہے کہ طالبان سے جنگ پاکستان کی وجہ سے ہارے۔ لیکن پاکستان ہے کہ جن ملکوں کو اس ملک نے شکست سے دوچار کردیا اسی ملک کے لیے قرض لینے ان ہی دونوں شکست خوردہ ممالک کے پاس جارہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جنگ میں تو ان دو سپر طاقتوں کا قبرستان افغانستان کو بنادیا گیا لیکن قبرستان بنانے والے ملک کے حکمران ان ہی کے در پر سجدہ ریز ہیں۔ لیکن اب ایک ایک کرکے ٹکا سا جواب ملنا شروع ہوگیا ہے۔ سعودی عرب نے کچھ کرنے کی شرط رکھ دی اور ہمارے حکمران کچھ کرنے کے موڈ ہی میں نہیں بلکہ عادت ہی نہیں۔ ان کی تو عادت قرض لینے اور ضائع کرنے کی ہوگئی ہے۔
پیسے ضائع ہونے کے بارے میں ہمارا موقف ذرا مختلف ہے۔ ہمارے ایک دوست کے دفتر میں کچھ ملازموں کا کمپنی کے اعلیٰ افسروں سے جھگڑا ہوگیا ان کو کمپنی نے فارغ کردیا ان دونوں نے کمپنی پر مقدمہ کردیا اور مقدمہ جیت گئے۔ دونوں کو پچیس تیس لاکھ فی کس مل گئے ان کی دیکھا دیکھی ایک اور ساتھی نے بھی مقدمہ ٹھونک دیا اسے بھی پچیس لاکھ مل گئے۔ یہ دیکھ کر ہمارے دوست کمپنی کے مالکان سے ملے اور کہا کہ آپ کے پاس ضائع کرنے کے لیے پیسے بہت ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے 75 لاکھ روپے دے دیں تا کہ میں آپ کی کمپنی کے خلاف مقدمہ کرکے ہار جائوں اور یہ 75 لاکھ روپے آپ کو دے دوں پچھلا حساب بھی بے باق ہو جائے گا اور کمپنی پر میرا احسان بھی ہوجائے گا۔ اس کی قسمت شاید خراب تھی کمپنی کو اس کی نیت پر شبہ ہوگیا اور اسے ہی نکال دیا۔ بہرحال اب وہ بھی مقدمہ نمٹا رہا ہے یہی کچھ ان حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ کردیا ہے بار بار جو پیسہ خرچ کررہا تھا اچانک اس نے سبز جھنڈی دکھادی۔ آئی ایم ایف کا سارا زور رقم کے درست استعمال کی طرف ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ غلط استعمال پر وہ منہ دوسری طرف کرلیتے ہیں اور جب یہ دوبارہ روتے ہوئے جاتے ہیں تو منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں یہاں تک کہ ہمارے حکمران اپنا سر اس کی چوکھٹ پر رکھ دیتے ہیں پھر وہ بڑے پیار سے سر اٹھا کر منہ میں دو نوالے دیتے ہیں جسے چباتے اور بغلیں بجاتے ہمارے حکمران وطن آجاتے ہیں۔ قوم کو خوش خبری دی جاتی ہے کہ مل گئے مل گئے پیسے مل گئے۔ حالانکہ یہ قرض اگلے چند برس تک پچھلے قرضوں کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کے لیے ملتا ہے۔ کسی زمانے میں ابراہیم جلیس نے لکھا تھا کہ ’’نیکی کر تھانے جا‘‘ انہوں نے ایسے کئی واقعات کا ذکر کیا جن میں نیکی کرنے والا ہی تھانے میں بند ہوجاتا ہے اور اب تو نیکی کرنے والے ہی کو دہشت گرد، القاعدہ، ٹی ٹی پی وغیرہ بنادیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق صرف نیکی سے اور ڈاڑھی اور مسجد سے ہونا چاہیے باقی کام پولیس کرلیتی ہے۔ اب یہ نیکی کر تھانے جا کا محاورہ بدل جانا چاہیے۔ اب اسے قرضہ لے قسطوں میں ڈال کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اور اب تو پہلے قرض کی رقم کے خرچ کا حساب بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور تمام طریقے بھی بتادیے گئے ہیں کہ رقم کیسے واپس کی جائے گی۔ ورنہ ڈنڈا سر پر تو رہتا ہی ہے۔ پاکستانی معیشت کو دیکھ کر تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا بلکہ وزیر خزانہ اور ان کے ساتھی اس وقت آئی ایم ایف کے پہاڑ کے نیچے چوہے کی طرح لگ رہے ہیں۔
ایک اور بات جس کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ حکمران سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں بولتے۔ یا یوں کہہ لیں کہ سچ کے سوا سب کچھ بولتے ہیں۔ جس طرح ملک میں پٹرول کی قلت اور قیمت میں اضافہ کی خبروں کی اوگرا کے ترجمان نے سختی سے تردید کی تھی اور اگلے ہی روز وزیرخزانہ نے پٹرول مہنگا کرنے کا اعلان کردیا۔ بالکل اسی طرح ایک دن قبل وفاقی وزیر پانی و بجلی یا وزیر توانائی (ان کو دیکھ کر لگتا بھی ہے کہ توانائی کے وزیر ہی ہوں گے) خرم دستگیر نے کہا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے اور اگلے ہی روز انہوں نے بتایا کہ رواں ماہ یعنی فروری میں بجلی کے نرخوں میں 4.46 روپے کا اضافہ ہوگا۔ یہ کمال صرف پاکستانی حکمرانوں کا ہوسکتا ہے کہ ایک روز قبل کوئی منصوبہ نہیں تھا اور اگلے روز صبح ہی آئی ایم ایف کے وفد کو سرکلر ڈیٹ یا گردشی قرضوں میں کمی کا منصوبہ پیش کردیا۔ ویسے ہمیں یقین ہے کہ خرم دستگیر نے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا ہوگا وہ بالکل درست کہہ رہے تھے کہ کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ بس آئی ایم ایف والے آئے اپنا منصوبہ انہیں تھمایا اور بریفنگ دی یا ہدایات دیں البتہ اخبارات کو یہ بتایا گیا کہ خرم دستگیر نے بریفنگ دی۔ یعنی آئی ایم ایف کا ہدایت نامہ وزیرخزانہ، وزیر توانائی، وزیر صنعت اور تمام وزرا بشمول وزیراعظم کو تھمایا جاتا ہے۔ وزیراعظم سے ایک اور درخواست ہے کہ چونکہ سارا مالیاتی نظام ٹیکس وغیرہ اور پارلیمنٹ کے فیصلے یہ سب آئی ایم ایف کی ہدایات پر ہی ہونے ہیں تو اپنی بچت اسکیم کے تحت 75 رکنی کابینہ کو فارغ کرکے آئی ایم ایف کے مشیروں کو نگرانی کا کچھ معاوضہ دے دیں۔ کافی بچت ہوگی۔ جب نظام ہی آئی ایم ایف کو چلانا ہے تو اتنی بڑی کابینہ اور پارلیمنٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ پوری پارلیمنٹ میں کسی نے آواز بھی نہیں اٹھائی کہ آئی ایم ایف پارلیمنٹ کو ہدایات دینے کا مجاز نہیں ہے۔