مولانا بلوچوں کی آواز ہیں

609

یہ مئی 2022ء کی بات ہے۔ یعنی آٹھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کے پینل نے گوادر، اورماڑا، پسنی اور جیوانی میں میدان مارا تھا۔ پچاس فی صد نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہے تھے۔ جیتنے کے بعد مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے اعلان کیا کہ وہ گوادر کو مثالی ترقیاتی شہر بنائیں گے لیکن ضروری ہے کہ اس کے لیے بلدیاتی اداروں کو اختیار اور وسائل فراہم کیے جائیں۔ افسوس کہ عوام کی حمایت اور بھرپور پزیرائی کے باوجود گوادر میں بلدیاتی ادارے کی ابتدا ہی نہیں کی گئی۔ مولانا ہدایت الرحمن بلوچستان کے حقوق کا نعرہ لے کر میدان میں نکل آئے۔ انہوں نے مچھیروں اور تاجروں کو سہولت دینے کی بات کی۔ اور کہا کہ انہیں بھتے کے لیے تنگ کرنا بند کیا جائے۔ بارڈر پر سیکورٹی فورسز چیک پوسٹوں پر عوام کو بلاجواز تنگ کرتی ہیں اس کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ مولانا نے بلوچستان کے لیے حق دو تحریک شروع کی۔ دسمبر 2021ء میں بتیس دن کے دھرنے کے بعد کامیاب مذاکرات ہوئے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کابینہ کے اراکین اور سرکاری حکام کے ساتھ دھرنا گاہ میں آئے اور معاہدے پر دستخط کیے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ حق دو تحریک کے تمام مطالبات جائز ہیں۔ وزیراعلیٰ کا مطالبات کو تسلیم کرنے اور دھرنے کو ختم کرنے کی اپیل پر مولانا نے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان کی یہ تحریک بلوچستان کو خوش حال بنانے تک جاری رہے گی۔
2021ء کے دھرنے کے خاتمے کے بعد ایک سال تک مطالبات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، لہٰذا اس تحریک کے لیے دسمبر 2022ء میں دوبارہ دھرنا دیا گیا۔ ایک ماہ تک حکومت نے مظاہرین سے کوئی بات نہیں کی، پھر ایک دن دھرنے پر حکومت نے دھاوا بول دیا اور مولانا کو گرفتار کرلیا۔ جب سے لے کر اب تک وہ حکومت کی تحویل میں ہیں، اس بارے میں کچھ خبر نہیں کہ اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ مولانا کا کیا قصور ہے؟ وہ بلوچستان کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ اُن کا قصور ہے یا وہ گوادر کے ماہی گیروں اور مقامی آبادی کو پینے کا پانی، بجلی، تعلیم اور روزگار دینے کی بات کرتے ہیں یہ اُن کا قصور ہے؟ یا وہ سمندر میں مچھلی کے غیر قانونی شکار کرنے والے بااثر لوگوں کے ٹرالر کی بات کرتے ہیں جس نے گوادر کی مقامی آبادی کے لیے روزگار کی تباہ کن صورت حال پیدا کردی ہے اور جس کے باعث ماہی گیر دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہوگئے ہیں۔ کیا اُن کے خلاف آواز اتھانا مولانا کا قصور ہے؟ حکومت گوادر کے عوام کے لیے مولانا کی طاقت ور آواز کو گرفتار تو کرسکتے ہیں لیکن دبا نہیں سکتے، گوادر کے عوام اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر ناراض ہیں مولانا ان کی آواز ہیں۔ وہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہیں، بلوچستان جو معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ پاکستان میں اب تک دریافت ہونے والی پچاس معدنیات میں سے چالیس بلوچستان سے حاصل ہوتی ہیں۔ ماہر ارضیات ضلع چاغی کو ’’معدنیات کا شوکیس‘‘ کہتے ہیں۔ جہاں بڑی تعداد میں معدنیات دریافت ہوئی ہیں۔ ریکوڈک اور سیندک بھی ضلع چاغی میں واقع ہے۔ جہاں تانبے اور سونے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے۔
گوادر جس کو سی پیک منصوبے کا جھومر قرار دیا جارہا تھا حال یہ ہے کہ ایسے مالا مال صوبے کے عوام پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں علاج اور تعلیم میسر نہیں، حکومت کو عوام کے مسائل کے حل پر توجہ دینا چاہیے نہ کہ اُن کے رہنما کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال کر معاملے کو مزید خراب کریں۔ بلوچستان خاص طور سے گوادر کی جغرافیائی اہمیت کو دنیا جانتی ہے، دشمن اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے دماغ لڑا رہے ہیں اور ایک ہماری حکومت ہے جو اپنے عوام کی دشمنی کو اپنی کامیابی گردانتی ہے۔