حالات بدلنے ہیں تو سوچ کا انداز بدلنا ہوگا

624

ایک ضعیف العمر شخص رات کے وقت گھر کے باہر اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں زمین پر بہت دیر سے کوئی شے تلاش کر رہا تھا۔ اس کوشش میں وہ کچی گلی کی مٹی کرید کرید کر دیکھتا بھی جا رہا تھا لیکن جس چیز کی تلاش میں تھا وہ اُسے دکھائی دے کر نہیں دے رہی تھی۔ کچھ فاصلے پر ایک نو جوان بہت دیر سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ جب کافی دیر ہو گئی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر تلاش کرنے والے شخص کے پاس آیا اور اس سے دریافت کیا کہ حضرت میں بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کچھ تلاش کر رہے ہیں لیکن آپ کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کو کس چیز کی تلاش ہے۔ ضعیف العمر شخص نے کہا کہ میری سوئی گر گئی ہے میں اُسے تلاش کر رہا ہوں۔ بزرگ کی بات سن کر وہ بھی ان کے ساتھ تلاش میں شریک ہو گیا۔ جب کافی کوشش کے باوجود اسے گری ہوئی سوئی نہ ملی تو اُس نے بزرگ سے پوچھا کہ آپ کو اندازہ ہے کہ وہ سوئی کس جگہ گری تھی۔ یہ سن کر ضعیف العمر شخص نے کہا کہ وہ تو میرے کمرے میں گری تھی۔ یہ سن کر ہمدردی کرنے والے نوجوان کو شدید غصہ آ گیا اور اس نے سخت لہجے میں کہا کہ سوئی آپ کے کمرے میں گری تھی اور آپ یہاں دیکھ رہے ہیں۔ ضعیف العمر شخص نے نہایت تحمل سے جواب دیا کہ میرے گھر کی بجلی کٹی ہوئی ہے، کمرے میں سخت اندھیرا ہے اور آپ کو تو علم ہی ہے کہ اندھیرے میں کوئی شے کیسے نظر آ سکتی ہے اسی لیے میں یہاں روشنی میں سوئی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
بات بس اتنی سی ہے کہ پاکستان کے سارے عوام ’’کٹے‘‘ سے دودھ نکالنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے کہ جماعتیں اسے دلدل سے نکال لینے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ کسی کی سمجھ کے مطابق پاکستان میں اگر شفاف انتخابات ہو جائیں تو پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ کسی کو آئی ایم ایف سے قرضہ مل جانے کی صورت میں حالات معمول پر آتے نظر آتے ہیں۔ کوئی جمہوری پارلیمانی نظام میں اپنی فلاح دیکھ رہا ہے تو کوئی صدارتی نظام میں ملک کو آگے کی جانب بڑھتا دیکھ رہا ہے۔ کوئی بھی ڈھونڈنے والوں سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ ’’سوئی‘‘ کہاں گری تھی۔
ناشکری اور ڈھٹائی اب اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ رہبرانِ قوم کبھی اپنے آپ کو پیغمبروں کے مرتبے پر فائز سمجھنے لگے ہیں اور دعویدار ہیں کہ انہیں خدا نے (نعوذ باللہ) مبعوث فرمایا ہے لہٰذا ان کا پیغام عوام میں عام کر دیا جائے۔ کوئی یہ دعویٰ کرتا نظر آتا ہے کہ تمام مسائل کا حل ان کے پاس ہے۔ کسی کا فرمانا ہے کہ فیصلہ اگر ہمارے حق میں نہیں آیا تو ایسا ہر فیصلہ باطل ہوگا وغیرہ وغیرہ لیکن پھر بھی کوئی یہ بتانے کو تیار و آمادہ نہیں کہ آخر سوئی گری تھی تو گری کہاں تھی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ایک خود ساختہ یا پس ِ پردہ والوں کا تراشیدہ بت، جب بھی اپنا منہ پھوڑتا ہے تو سچ سچ بتائے بغیر اس کا گزارا بھی نہیں ہوتا کہ سوئی گھر کے اندھیرے کمرے ہی میں گری تھی لیکن جہاں گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو وہاں کوئی چیز کیسے دکھائی دے سکتی ہے۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ گلی میں لگے اس کھمبے کے بلب کی روشنی میں سوئی ڈھونڈ لینا چاہتا ہے جہاں تیز روشنی موجود ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اندھیرے کمرے میں سوئی کیا کسی بھی چیز کو ڈھونڈا جا ہی نہیں سکتا لیکن یہ بات بھی موٹی عقلوں والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ تیز روشنی والی جگہ میں اگر سوئی گری ہی نہ ہو تو وہ قیامت تک ڈھونڈے جانے کے باوجود کیسے مل سکتی ہے۔
ہمارے سارے اکابرین اور عوام میں سے بھی بچے بچے کو یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کے جس مسئلے کو وہ حل کرنا چاہتے ہیں اس کی سوئی باہر گلی میں نہیں گری بلکہ گھر کے اندر ہی گری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اندھیرے میں سوئی کا ڈھونڈ لینا کسی طور ممکن نہیں لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ گھر کے تاریک کمرے میں روشنی کا انتظام نہیں کیا جا سکتا۔
سب جانتے ہیں کہ پاکستان کس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ مدت تک کس بات کے حصول کے لیے مسلمان ہند قربانیاں دیتے چلے آ رہے تھے۔ گاجر مولی کی طرح مسلمانوں کے گلے کیوں کاٹے جا رہے تھے اور اُس زمانے میں بھی 30 لاکھ سے زیادہ شہادتیں کس مقصد کے لیے دی گئی تھیں۔ یہ سب جاننے کہ باوجود کہ سوئی تو کمرے ہی میں گری تھی، آج پاکستان بننے کے 75 سال بعد بھی تمام رہنمایانِ قوم اور قوم و ملک کے کرتا دھرتا اگر مستعار لی ہوئی روشنیوں میں اس سوئی کو تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اگر قیامت تک بھی اس سوئی کو تلاش کرتے رہیں گے تو وہ ان کے ہاتھ نہیں لگ سکے گی بلکہ تیز اور چمچماتی روشنیاں ان کی آنکھوں کے چراغوں کی روشنیاں بھی چھین لیں گی۔
پاکستان کا حل نہ جماعتیں ہیں، نہ وردیاں ہیں، نہ پارلیمنٹ ہے اور نہ صدارتی نظام۔ پاکستان کے مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے کہ اس نظام کا نفاذ جس کے لیے رہبرانِ قوم نے مسلمانانِ ہند سے قربانیاں مانگی تھیں۔ سارے مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ پورے ملک میں بلا خوف و خطر سارے تجرباتی نظام ہائے کافرانہ کو لپیٹ کر خدا اور اس کے رسول کے نظام کو نافذ کیا جائے۔ اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں سوئی کو تلاش کرنے کے بجائے تاریک کمرے میں روشنی کا انتظام کیا جائے اور کھوئی ہوئی سوئی کو اس جگہ تلاش کیا جائے جس جگہ وہ گری تھی۔ اب روشنی کے لیے عام ایندھن جلانا پڑے یا لہو سے دیے روشن کرنے پڑیں لیکن کمرہ روشن کیے بغیر سوئی کبھی نہ مل سکے گی۔ اس لیے حالات کو بدلنے کے لیے اپنے اپنے انداز اور سوچ کو بدلنا ہوگا۔ یہ ہوگا تو سب کچھ ہوگا ورنہ مصنوعی روشنیاں ان کی آنکھوں کو خیرہ کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کی بصارتیں چھین لیں گی۔