طرزِ حکمرانی کی ناکامی

893

طرزِ حکمرانی کی ناکامی ایک اور مظہر سامنے آگیا ہے۔ سانحہ پشاور دوم یعنی پولیس لائن دھماکے کے بعد صوبہ خیبر پختون خوا کے پولیس ملازمین احتجاجی مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ ریاست و حکومت کا وہ ادارہ جسے حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے وہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی طرح مظاہرے کررہا ہے۔ پولیس کے جونیئر رینک کے افسروں کو شبہ ہے کہ پولیس لائنز مسجد خودکش دھماکے کی حقیقی اور مناسب تحقیقات نہیں کرائی جائیں گی۔ پولیس لائنز دھماکے کے بعد ہونے والے مظاہروں میں جس طرح کے نعرے لگائے گئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اس سانحے کے حقیقی ذمے داروں کا تعین کیا جائے گا۔ یہ بھی خبر ہے کہ خیبر پختون خوا پولیس کے جونیئر رینک کے افسروں نے پولیس لائنز مسجد خودکش دھماکے کی مناسب تحقیقات نہ کرانے پر اجتماعی استعفوں کی دھمکی دے دی ہے۔ پولیس کے افسروں اور جوانوں میں جو ردعمل ہوا ہے اس کی تصدیق آئی جی خیبر پختون خوا معظم جاہ انصاری کی پریس کانفرنس سے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سازشی نظریات پیش کرکے میرے جوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گرد نیٹ ورک کے نزدیک ہیں اور سانحہ پشاور میں ملوث خودکش بمبار کی شناخت کرکے قریب پہنچ گئے ہیں جو پولیس کی وردی میں ملبوس تھا، بطور آئی جی میرے افسران اور میرے جوان بھی اس وقت تکلیف میں ہیں، میں گزارش کروں گا کہ ہماری تکلیف میں اضافہ نہ کیا جائے۔ آج تین روز گزر گئے ان 3 دنوں میں شاید میں صرف 3 گھنٹے ہی سویا ہوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ایک ایک شہید کا بدلہ لیں گے۔ قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، ہم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے نزدیک ہیں جو ہماری اتنی شہادتوں کی وجہ بنا سازشی نظریات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سوال کیا جارہا ہے کہ خودکش دھماکے میں اتنی شہادتیں کیسے ہوسکتی ہیں، اس شبے کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زیادہ شہادتیں مسجد کی چھت گرنے کی وجہ سے ہوئی ہیں جو شبہات کیے گئے ہیں ان میں یہ سوال بھی ہے کہ پولیس لائنز جہاں اتنی سیکورٹی ہوتی ہے وہاں اتنا بارود کیسے پہنچ گیا اور اس شبے کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خودکش بمبار پولیس کی وردی میں تھا، اہلکاروں نے اسے پیٹی بھائی سمجھ کر چیک نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ یہ بھی سازشی تھیوری پیش کی گئی ہے کہ ڈرون حملہ کیا گیا، کوئی آئی ای ڈی پھٹنے کا دعویٰ کررہا ہے اس لیے پولیس کے سربراہ وضاحت کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستانی قوم تقریباً چالیس برسوں سے دہشت گردی اور تخریب کاری کا شکار ہے اور اس کی وجہ عالمی قوتوں کی خطے کے ممالک بالخصوص جنوبی ایشیا مغربی ایشیا مشرقی وسطیٰ اور مسلمان ممالک میں مداخلت ہے۔ گزشتہ بیس برسوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو امریکی جنگ جاری رہی اس نے دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کو فروغ دیا، جس کا سب سے زیادہ شکار خیبر پختون خوا ہوا ہے۔ سانحہ پشاور دوم اس عرصے میں دہشت گردی کے خطرناک ترین واقعے میں ایک ہے۔ اس عرصے میں کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، سیاسی جماعتیں طاقتور ریاستی ادارے نہ قانون نافذ کرنے والے اور نہ پس پردہ واقعات پر نظر رکھنے والی ایجنسیاں دہشت گردی کا توڑ نہیں کرسکیں۔ یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ جہاں اتنی سیکورٹی ہو وہاں تخریب کاری اور دہشت گردی کا سامان کیسے پہنچ گیا۔ اس سانحے کے بعد حکومت اور حزب اختلاف اور پارلیمان کی سطح پر جو ردعمل آیا ہے وہ قوم کو مزید مایوس کررہا ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا پولیس کے جوانوں اور جونیئر افسروں کے مظاہرے، نعرے، مطالبات اور اجتماعی استعفوں کی دھمکی طرز حکمرانی کی ناکامی کا چیخ چیخ کر اعلان کررہی ہے۔ ایک طرف یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ معیشت تباہ ہوگئی ہے، ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا ہے، مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان نے عوام الناس کی زندگی کو عذاب بنادیا ہے، سیاست دانوں کی جنگ اقتدار سیاسی عدم استحکام کا سبب بنی ہوئی ہے، اس لیے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ لیکن کیا حقائق پر پردہ ڈال کر ایسا کیا جاسکتا ہے۔ قوم نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر انسانی حقوق کی بدترین پامالی کو بھی قبول کرلیا لیکن سانحہ پشاور نے بتایا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دینے کے دعوے کی حقیقت کیا ہے۔ مختلف قسم کے آپریشنوں کے مابعد اثرات اور اس کی تباہ کاری الگ موضوع ہے۔