سودی نظام کو فروغ دے کر اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ نہیں لڑ سکتے،اسحاق ڈار

370

کراچی :وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ہمیں اللہ سے توبہ کرنی چاہیے، ہم بہت کمزور ہیں،سودی نظام کو فروغ دے کر اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ نہیں لڑ سکتے،ہم سرنڈر کریں اور کوشش کریں۔ اللہ برکت دے گا۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ 5 سال سے قبل ہی سود سے پاک اسلامی بینکاری نافذ ہو سکے۔

نیشنل اسلامک اقتصادی فورم سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام معیشت کا لائحہ عمل کیسا ہوگا اور اس کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں، یہ موضوع میرے دل کے بہت نزدیک ہے اور میری خواہش ہے کہ جتنا جلد ہوسکے ہم اپنے ملک میں سود کے نظام کا خاتمہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری کوشش کی جو کچھ بھی حکومت تیزی سے کرسکے مثلاً ٹیکس میں مساویت نہیں تھی اسے حل کیا گیا، خصوصی ترمیم کی گئی، سیکیورٹی ایکسچینج کے حوالے سے اقدامات کیے گئے، وزارت خزانہ میں ایک سینیئر افسر کی قیادت میں ایک ونگ قائم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دونوں بینکوں سے درخواست واپس لی۔ ملک میں اسلامک بینکنگ کے نظام ہی سے معیشت کی بحالی ہوگی۔ مِس مینجمنٹ کی وجہ سے آج معاشی حالات بدترین ہوچکے ہیں۔  اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 2013 سے 2017 تک جب میں وزیر خزانہ تھا تو اسلامک بینکنگ نظام پر کام کیا تھا، اس دوران اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی نے مفتی تقی عثمانی کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ فنانس ایکٹ بی 2016 میں اسلامی بینکاری کو تیز رفتار سے ترقی دینے کے لیے لسٹڈ مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو 2 فیصد ٹیکس کی رعایت دی گئی، جس کی صرف ایک شرط بیلنس شیٹ کا شریعت کے مطابق ہونا تھا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ یہ کاوش جاری تھی جس کے فوائد بھی ملے، اس وقت صرف پاکستان کا واحد اسلامی بینک ’میزان بینک‘ تھا جس کی تقریباً 100 شاخیں تھیں، لیکن اگر آپ اچھی نیت کرلیں تو اس کے نتائج بھی اچھے نکلتے ہیں اور وہ 100 برانچز والا بینک آج ایک ہزار برانچز پر مشتمل بینک بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدانتظامی کی وجہ سے آج ملک کے معاشی حالات انتہائی بدتر ہو چکے ہیں۔کسی کو پسند نہیں تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بنے۔ 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہم نے مشکل وقت دیکھا۔ پاکستان کو بدترین پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، ہم نے مشکل حالات سے ملک کو نکالا ہے۔ 2013 میں بھی ملک ڈیفالٹ کی طرف تھا ، ہم نے آکر حالات بہتر کیے اور 2016 تک مضبوط ترین ملکوں میں شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپیلیں واپس لے کر دوبارہ ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے جس کا سربراہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کو بنایا گیا ہے جس میں علمائے کرام، صنعتکار، بینکرز شامل ہیں اور کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوچکا ہے جسے ہم تیزی سے آگے لے کر چلیں گے۔