…!پھر ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے

572

اپریل 2022 پاکستان کی سیاست بھونچال میں ایسی آئی ہوئی ہے کہ آج تک ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوسکا۔ ملک سیاسی ومعاشی بحران کی جانب تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے مگر افسوس کہ ہر سیاسی جماعت اقتدار حاصل کرنے میں مصروف دکھائی دے رہی ہے۔ اس ملک و قوم کا کوئی پرسان حال نہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی، یہ ہماری سیاست کا المیہ رہا ہے کہ اپنوں ہی کے خلاف سازشوں سے اقتدار کے تختے اُلٹے گئے ہیں۔ مختصر سا ماضی پر نظر ڈالیں لیاقت علی خان سازش کے تحت قتل کرادیے گئے، خواجہ ناظم الدین بر طرف، محمد علی بوگرہ زبردستی ا ستعفا، چودھری محمد علی استعفا لیا گیا، حسین شہید سہروردی مستعفی، آئی آئی چندریگر مستعفی، فیروز خان نون تختہ الٹ دیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو تختہ الٹ دیا گیا، محمد خان جونیجو برطرف، بینظیربھٹو دو مرتبہ برطرف نواز شریف برطرف، نواز شریف تختہ الٹ دیا گیا، ظفر اللہ جمالی استعفا لیا گیا، شوکت عزیز مستعفی، یوسف رضا گیلانی عدالتی برطرفی، نواز شریف کا تیسرا اقتدار عدالتی برطرفی کی نذر جب کہ عمران خان کا پہلا اقتدار تحریک عدم اعتماد کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، آخر کیا وجوہات رہی ہیں کہ پاکستان میں کبھی بھی سیاسی استحکام قائم نہیں رہ سکا۔
یقینا یہ بات کافی حد تک واضح ہوچکی ہے کہ ہر حکومتوں کو پس پردہ سہولت کاری کے بغیر قائم نہیں رکھا جاتا کہیں نہ کہیں ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے اور اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے طاقتور بے ساکھیوں کا سہارا لیتی آئی ہیں تو دوسری جانب ہمارے ادارے بھی سیاست میں مداخلت کو قبول کر چکے ہیں اور مستقبل میں اس بات کا بھی اشارہ دے دیا گیا ہے کہ ہمارا اب سیاست میں کوئی کردار نہیں ہوگا پاکستان کا آئین جو ہمیں اجازت دیتا ہے ہم اُس آئین کے تحت اپنا کردار ادا کریں گے، یہ واضح پیغام تھا جس کے بعد ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی سمت درست کر لینی چاہیے تھی مگر افسوس کہ آج بھی ہماری سیاسی جماعتیں کسی مداخلت، کسی سہولت کاری کی منتظر دکھائی دے رہی ہیں۔
ن لیگ جو ماضی میں اداروں کی دھجیاں اُڑاتی رہی ہے میاں صاحب مریم نواز سمیت سینئر قیادت نام لے لے کر الزامات کے نشتر برساتے رہے ہیں پیپلزپارٹی بیک ڈور اپنا راستہ ہموار کرنے کے لیے سیاسی چالیں چلتی رہی، مولانا اپنا لشکر لے کر اداروں پر چڑھائی کی دھمکیا ں دیتے رہے، جس کے نتیجے میں ایک برسر ِ اقتدار حکومت کو سازش کے تحت رخصت کر دیا گیا جس کے بعد وہ سارے منہ بند ہوگئے جو آئین کی پاسداری کے محافظ تھے یقینا خان صاحب کی حکومت ایک ناکام حکومت کے طور پر سامنے آئی جس میں کئی خامیاں موجود تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی حقیقت تھی کہ خان صاحب کی حکومت کا نصیب کہ پوری دنیا میں کورونا وائرس نے دنیا بھر کا معاشی نظام برباد کر دیا جس کے اثرات اس وقت بھی مہنگائی بے روزگاری کی صورت میں موجود ہیں اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کے وقت سے بھی زیادہ معاشی بحران پیدا کر دیا گیا ہے جو موجودہ حکومت کی کھلی ناکامی کو ظاہر کر رہا ہے۔
پی ڈی ایم نے خان صاحب کی حکومت کو رخصت کرنے کا جو دھوکا عوام کو دیا تھا وہ یقینا اُس میں کامیاب رہی ہے مہنگائی بے روزگاری معاشی بحران سیاسی استحکام غیر آئینی اقدام کا جو علم لے کر چلے تھے اپنے ہی ہاتھوں سے اس کو دفن کر کے آج سب اپنے اپنے محلوں میں سکون کی نیند لے رہے ہیں اور غریب متوسطہ عوام آج بھی وہاں کھڑے ہیں جہاں سے تحریک عدم اعتماد کو پیش کیا گیا تھا۔ قوم ۷۵ سال سے ان سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتی آئی ہے مگر افسوس کے وہ سہولت کار جو اس تحریک کو کامیاب بنانے میں پس پردہ اپنا کردار ادا کرتے رہے آج اُن کی خاموشی ملک و قوم کے لیے لمحہ فکر ہے۔
پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت نے اس قوم کو آٹھ نو ماہ میں معاشی بحران مہنگائی بے روزگاری اور مقدم آئین کے بدلے ایک اور این آر او دیا جس میں ن لیگ پیپلزپارٹی کی قیادت پر لگے تمام تر کرپشن مقدمات کا خاتمہ مریم نواز کو بری میاں صاحب کی وطن واپسی کی رائیں ہموار کی جارہی ہیں جن عدالتوں نے ن لیگ کی سینئر قیادت کو اشتہاری قرار دیا گیا آج وہی عدالتیں ان کو صادق وامین کے سر ٹیفکیٹ تقسیم کر رہی ہیں ہر کرپٹ شخصیات کو کلین چٹ دی جارہی ہے برسوں کے مقدمات کے فیصلے پچھلے آٹھ ماہ میں نمٹا دیے گئے۔ اس قوم کے ٹیکس کا پیسہ لمبی لمبی تحقیقات پر برباد کر کے کرپشن کے باب کو ختم کر دیا گیا جو لوگ کل تک عدالتوں سے سزا یافتہ تھے جو کل تک عدالتوں کی نظر میں اشتہاری تھے جو لوگ کل تک عدالتوں میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکے تھے جو لوگ جعلی کاغذات پیش کرنے کے مرتکب تھے آج وہ اس ملک کی معزز شخصیات ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک اور ۲۳ کروڑ سے زائد عوام کا مستقبل سونپ دیا گیا ہے۔
مگر آج بھی یہ غریب قوم مہنگائی، بے روز گاری، تعلیم، علاج، انصاف سے میلوں دور کھڑی کر دی گئی ہے جس کی تضحیک اگلے عام انتخابات میں بے وقوف بناکر کی جائے گی۔ یقینا ملک کی تینوں بڑی جماعتیں اور ان تینوں جماعتوں کو بے ساکھیاں دینے والی دوسری جماعتیں اس ملک و قوم کے مسائل کو حل تو دور درست سمت تک دینے میں ناکام رہی ہیں۔ آج ملک جس دہراے پر کھڑا ہے ہم جس تیزی کے ساتھ معاشی بحران پھنس رہے ہیں جس تیزی کے ساتھ ملک میں بے روزگاری مہنگائی کا سونامی جنم لے رہا ہے جس تیزی سے ملک میں نو جوان نسل بے روزگاری سے تنگ جرائم کی جانب بڑھ رہی ہے ان تمام چیزوں کی ذمے داری ہماری تمام سیاسی جماعتوں ملک کے دونوں اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ وطن عزیز اس وقت سنگین سیاسی معاشی بحران کی زد میں ہے جس کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ ملک کے دونوں ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا مضبوط موثر غیر جانبدار کردار ادا کرتے ہوئے ملک و قوم کے بہتر مستقبل میں سیاسی معاشی استحکام پیدا کرنے کے لیے اپنا فوری کردار ادا کریں تاکہ ملک وقوم ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن ہوسکے ملک میں سیاسی معاشی استحکام قائم ہوسکے ملکی مفاد میں آگے آنا ہوگا پھر ایسا نا ہوکہ بہت دیر ہوجائے۔