ڈار، ڈالر اور ڈکٹیٹر

492

کارپوریٹ میڈیا کے اینکرز اور حکومت کے بڑے اسحاق ڈار کو بہت ارمانوںسے لندن سے ایک خصوصی جہاز میں لائے تھے ان کی آمد سے پہلے ماحول بنانے اور سماں باندھنے کی خاطر انہیں معیشت کی ڈولتی ہوئی کشتی کے تجربہ کار ناخدا کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت کے معمولی اُتار چڑھائو کو اسحاق ڈار کی شخصیت کی دھاک اور رُعب کا باعث قرار دیا جانے لگا۔ کئی ماہ کی امیدوں اور فرضی کہانیوں اور طفل تسلیوں کے بعد اسحاق ڈار نے کہہ دیا کہ پاکستان کی معیشت کی بہتری اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ معیشت ہی کیا یہ ملک بھی بس خدا کے سہار ے ہی پچھتر برس سے چلتا چلا جا رہا ہے اس پر ’’کالج کی بس‘‘ کے نام سے ایک پرانی فکاہیہ نظم کا یہ مصرع صادق آتا۔
’’کمالِ نہ ڈرائیور نہ خوبی ٔ انجن، خدا کے سہارے چلی جارہی ہے‘‘۔ اسحاق ڈار کے اعتراف شکست کے ساتھ ہی ڈالر آسمان کی بلندیوں پر اُڑ رہا ہے اور جمہوری حکومت جمہوی طور طریقوں کو خیر باد کہہ کر آئین کی حدود سے باہر تانک جھانک کرنے لگی ہے جو ڈکٹیٹر شب کی خاص ادا ہوتی ہے۔ ملک بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہے اور اس بحران سے نکلنے کی کوئی سبیل دکھائی اور سُجھائی نہیں دے رہی۔ معاشی بحران کسی بڑے سرجیکل آپریشن کا متقاضی ہے۔ تمام صلاحیتوں کو اسی راہ میں لگانے اور کھپانے کا تقاضا کرتا ہے۔ قوم کو تاریخ میں دوسری بار خوفناک بحران کا سامنا ہے۔ اہل نظر موجودہ بحران کو اکہتر کے اس بحران سے زیادہ ہلاکت خیز اور تباہ کن قراردیتے ہیں جو ملک کے ایک حصے ہی کو بہا کر لے گیا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے کچھ بھی نہیں سیکھا گیا۔ اب بھی وہی تجربات دہرائے جانے کا سلسلہ جاری ہے جن سے ملک کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ انہی تجربات نے ملک کو ایک تماشا بنا دیا ہے۔ اصلاحات کراتے ہی انتخابات کرانے کے عزم اور دعوے کے ساتھ قائم ہونے والی حکومت اب نہ صرف دستیاب وقت کا ہر لمحہ انجوائے کرنا چاہتی ہے بلکہ اپنی زندگی کی اور سانسیں مستعار لینے پر تُل گئی ہے۔ حکومت ایک ایسے آب ِ حیات کی تلاش میں ہے جو اسے زندگی کے کچھ اور لمحات عطا کرے۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ موجودہ نظام اپنی طبعی مدت پوری کرچکا ہے۔ اس نظام کی طبعی عمر گزشتہ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی پوری ہوگئی تھی۔ اصولی طور پر پی ڈی ایم کی حکومت کو اس اسمبلی کے سہارے دن گزارنے کے بجائے عوام کی دانش پر اعتماد کرتے ہوئے انتخابات کا راستہ اختیار کر نا چاہیے تھا۔ یہی وہ اسمبلی تھی جسے پی ڈی ایم کی قیادت ہاتھ لہرا لہرا کے جعلی اور دھاندلی زدہ قرار دیتی تھی۔ اب اسی اسمبلی کو سینے سے چمٹائے مراعات کا لطف لیا جا رہا ہے۔ اس روش نے موجودہ سسٹم کو بے جان لاشہ بنا دیا ہے۔ یہ سسٹم اب چلتا نہیں صرف گھسٹ رہا ہے۔ ملک کے حالات برق رفتاری کا تقاضا کرتے ہیں مگر سسٹم گھسٹ اور رینگ رہا ہے۔ اس طرز عمل سے ملک کے معاشی اور سماجی مسائل مزید گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔
دوصوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ اصولی طور پر دوصوبوں میں انتخابی شیڈول کا اعلان ہونا چاہیے مگر حکومت کو ہر بات قبول ہے سوائے انتخابات کے۔ انتخابات کے لفظ ہی سے حکومت خوف محسوس کر رہی ہے۔ انتخابات سے فرار کی صورت میں آئین پاکستان کا کیا کرنا ہوگا کیو نکہ آئین میں صرف پارلیمانی جمہوریت کا ذکر ہے اور جمہوریت کی خامی اور خرابی کا علاج ایک اور جمہوری تجربے میں بیان کیا گیا ہے۔ آئین میں ٹیکنوکریٹس سمیت کسی دوسرے تصور ِ حکومت کا کوئی ذکر نہیں۔ بہتر ہے کہ چودہ جماعتوں کی قومی حکومت اب اقتدار مٹھی بھر ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے عوام کی دانش کے آگے سپر ڈال دے۔ خود کو عوام کی عدالت میں کھڑا کرے اور جمہوریت میں عوام ہی بہترین منصف ہوتے ہیں۔
ڈار اور ڈکٹیٹر شپ کی طرح ڈالر کی کہانی بھی ہوش رُبا اور دردناک ہے۔ امریکی ڈالر کی قدر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے دوسرے لفظوں میں پاکستانی روپیہ اپنی پچھتر سالہ تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا اور اب ڈالر 266 روپے کا ہوگیا۔ ڈالر کو زمیں بوس کرنے کے اسحاق ڈار کے دعوے اب روپے کے زمیں بوس ہونے کا منظر دکھا رہے ہیں۔ یہ حالات عوام کی رگوں کا خون اور ہڈیوں کا گودا نچوڑنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ملک میں کروڑوں لوگ پہلے ہی خط ِ غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے تھے روپے کی اس تاریخی ناقدری کے باعث یہ تعداد بڑھ جائے گی۔ پاکستانی بینکوں میں پڑے ہوئے پاکستانی عوام کے روپے کاغذ کے ٹکڑے بنتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی کے سیلاب کے آگے باندھے گئے تمام بندھ ٹوٹتے جا رہے ہیں اور عوام کی قوت ِ خرید جواب دیتی جا رہی ہے۔ اس مہنگائی کا اثر پاکستان کے حکمران طبقات اور بااثر فیصلہ ساز اشرافیہ پر نہیں پڑرہا کیونکہ ان کی جائدادیں او رکاروبار پونڈز اور ڈالروں کی دنیا میں ہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے ان کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ مہنگائی اور معاشی بدحالی کی زد اس عام پاکستانی پر پڑتی ہے جس کا مرنا جینا پاکستان میں ہے۔ اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے جن کی وفا اس مٹی سے ہے۔ بالادست طبقے کا اس ملک سے صرف مراعات ملازمت اور حکومت کا تعلق باقی رہ گیا ہے۔ ڈالر کی بلند پروازی اور روپے کے زمیں بوس ہونے کے یہ نظارے ایسے دور حکومت میں دیکھنے کو مل رہے ہیں جو بزعم ِ خود تجربہ کار اور اہل تھے۔ نو ماہ گزرچکے ہیں نہ تجربہ کام آیا اور نہ ہی اہلیت کا کوئی مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اُلٹا ملک کی معاشی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہوگئی۔ نوماہ میں ڈالر کی قیمت میں اسی روپے کا اضافہ موجودہ حکومت کے تجربے اور اہلیت کے دعووں کا منہ چِڑا رہا ہے۔
حکومت نے عوام کی امید بھی چھین لی ہے اور اب یہ بات طے ہو چکی ہے ملک کو اسی راہ پر چلانا ہے جس پر وہ پچھتر سال سے چل رہا ہے اور پچھتر سالہ سفر کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کا خزانہ خالی ہے اور کشکول اُٹھائے دوسرے ملکوں کے دروازوں پر دستک دینے پر مجبور ہے۔ موجودہ حکومت سے کسی دور رس منصوبہ بندی کی توقع نہیں رہی۔ دن گزارنے کی اس پالیسی نے ملک کو یہ دن دکھائے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ ملک ایک بند گلی میں کھڑا ہے۔ بند گلی سے نکلنے کی کوئی تدبیر اور سبیل بھی نظر نہیں آرہی معاشی بحران کے ساتھ ہی توانائی کا بحران بھی دروازے پر کھڑا ہے اور توانائی کے بحران کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں مزید کمی۔ اس سے ملک کی صنعت کا پہیہ جو پہلے ہی آہستہ روی کا شکار ہے مزید سست ہوجائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ فیصلہ ساز قوتیںاور حکمران ذاتی پسند وناپسند کے بجائے قوم وملک کے مستقبل کی بنیاد پر فیصلہ کرکے ملک کو حالات کی اس بند گلی سے نکالیں۔ دن لگانے اور ڈنگ ٹپانے کی پرانی روش نے ملک کو بدحالی کے سوا کچھ نہیں دیا۔