پٹرول بم پھٹ گیا

575

حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کے باعث پاکستان کے غریب عوام پر پٹرول بم گرا دیا اور یہ پٹرول بم پھٹ بھی گیا جس کی وجہ سے عوام کی چیخیں بھی نکل گئی ہیں۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے ہولناک اضافے سے ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہوگیا ہے۔ پٹرول، گیس، بجلی اور ڈالر کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے ملک میں مہنگائی کا تناسب 35فی صد تک بڑھنے کے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ حکومت کے اس اقدام سے غریب اور تنخواہ دار طبقہ دیوار سے لگ گیا ہے اور اسے بری طرح کچل دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی غلامی میں حکمران بالکل اندھے ہوگئے ہیں اور غریب عوام کی پریشانیوں اور مشکلات کا انہیں رتی بھر بھی احساس نہیں ہے۔ عمران خان جن کا ساڑھے تین سالہ دور حکومت بھی مہنگائی کے نرغے میں رہا اور انہیں عوام کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم کی حکوت بھی اسی راستے پر چل پڑی جس پر عمران خان چل رہے تھے۔ ملک کے موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہوں یا پی ٹی آئی کے اسد عمر، مسلم لیگ کے مفتاح اسماعیل، یا شوکت ترین یا پھر حفیظ شیخ سب کے سب ناکام ہوگئے ہیں کیونکہ یہ سب ماہر معاشیات آئی ایم ایف کے غلام ہیں اور ان سب کی پالیسیاں ایک ہیں اور ان میں رتی بھر بھی کوئی فرق نہیں ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 35روپے کا اضافہ قوم کا معاشی قتل عام ہے اور یہ غریب عوام کے لیے ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے۔ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں کم ہونے کو نہیں آرہی ہیں۔ آئی ایم ایف مسلسل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں، بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے، قومی اداروں کی فروخت اورنج کاری پر زور دیتا رہتا ہے لیکن آئی ایم ایف نے جھوٹے منہ بیوروکریسی، ارکان اسمبلی اور حکومتی عیاشیاں ختم کرنے کا کبھی بھی مطالبہ نہیں کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غریب عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے چھے ماہ کے لیے سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد کردے۔ ججوں، وزراء، ایم این اے، ایم پی اے کے پٹرول الاونسز فوری طور پر ختم کیے جائیں کیونکہ پندرہ بیس ہزارروپے کمانے والا غریب آدمی جب خود پٹرول پمپ سے اپنی جیب سے پٹرول خرید کر اپنی گاڑی میں ڈلوا سکتا ہے تو اشرافیہ کے یہ لوگ کیوں نہیں خرید سکتے۔ اشرافیہ کی یہ عیاشیاں اور مراعات فوری طور پر ختم اور حکمرانوں کی شاہ خرچیاں بند کی جائیں۔
پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے مہنگائی کا جن آپے سے باہر ہوگیا ہے اور ٹرانسپورٹروں نے فوری طور پر کرائے میں بھی اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے مسافروں اور ٹرانسپورٹروں میں تلخ کلامی بھی ہورہی ہے۔ حکومت نے خسارے کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے اور اپنی نااہلی کی قیمت عوام سے وصول کی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے آفٹر شاکس عوام کو لگنے شروع ہوگئے ہیں۔
حکومت کی کرپشن اور نااہلی سے ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے۔ ایوب خان کے دور حکومت میں جب چینی کی قیمت میں 25پیسے فی کلو اضافہ کیا گیا تو پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا تھا اور ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے پورے ملک میں گونج اٹھے اور ان نعروں کی گونج نے ہی ایوب خان جیسے ڈکٹیٹر کو کرسی چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ پاکستانی قوم آج بھی اسی ظلم کا شکار ہے۔ لیکن پاکستان کے عوام اب تک متحد نہیں ہوسکے۔ ظلم تو سہہ رہے ہیں لیکن اس نظام سے بغاوت کرنے کو تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے ظالم حکمران طبقہ ظلم پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ حکمرانوں کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب یہ عوام اپنے حق کے لیے میدان میں نکل آئے اور آٹے کے حصول کے لیے لائن لگانے والے ہزاروں افراد جب اپنے حق کے لیے ایوانوںکا رخ کریں گے تو انہیں ان کا حق بھی ملے گا اور انہیں دوبارہ لائن بھی نہیں لگانا پڑے گی۔ پاکستانی قوم کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کرے۔ حکومت چاہے عمران خان کی ہو یا پی ڈی ایم کی یہ سب ایک ہیں۔ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں ہے غریب کے لیے حکمرانوں کے پاس صرف نعرے اور خواب ہیں۔ غریبوں کو اب اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور اس نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہوگی۔ یہ بھوک غربت بے روزگاری اور مہنگائی ان کاہی مقدرکیوں ہے۔ عوام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے ہولناک اضافے کو مسترد کرتے ہیں حکمران فوری طور پر اس اضافے کو واپس لیں ورنہ پاکستان کے عوام ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ان بے حس حکمرانوں کو جائے پناہ نہیں ملے گی۔