آئی ایم ایف سے مذاکرات کا آغاز

497

ایک ارب ستر کروڑ ڈالر کے قرضے کی قسط جاری کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ 9 ویں جائزے کے لیے مذاکرات اسلام آباد میں شروع ہوگئے۔ یہ مذاکرات جو خاصی تاخیر سے ہورہے ہیں، ایک ہفتے تک جاری رہیں گے، جن موضوعات پر مذاکرات ہورہے ہیں ان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ صورت حال اتنی نازک ہوچکی ہے کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط نہیں ملی تو ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ دیوالیہ کا خوف دلا کر عالمی مالیاتی فنڈ اپنے تمام احکامات ماننے پر مجبور کررہا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں بلکہ صورت حال یہ ہوچکی ہے جس کے مطابق پاکستان کو ناک رگڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے درآمدات کے لیے ڈالر دستیاب نہیں ہیں، کئی صنعتیں بند ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے اندازہ کیا گیا ہے کہ 75 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، زرمبادلہ کے حصول کے لیے برآمدات میں اضافہ سب سے اہم ذریعہ ہے لیکن خام مال کی درآمد میں کمی کی وجہ سے برآمدات بھی متاثر ہوگئی ہیں۔ بینکوں نے درآمدات کے لیے ایل سی کھولنے سے انکار کردیا ہے جس کی وجہ سے پٹرولیم سمیت بنیادی ضروریات کی اشیا کی قلت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف کے حکام اپنی شرائط کو ’’سخت اقدامات‘‘ اور ’’اصلاحات‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ اصلاحات نہیں بلکہ تباہی کا نسخہ ہے، جس کا اصل ہدف یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام وسائل پر اختیار ختم ہوجائے سود خور سامراجی عالمی مالیاتی نظام کا تسلط قائم ہوجائے۔ مذاکرات کے دوران حکومت کی اقتصادی ٹیم کے پاس اس یقین دہانی کے سوا کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم آپ کے تمام احکامات پر عمل کریں گے، بس ہمیں مہلت دیجیے۔ دس ماہ قبل سابق حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تھی جس کا سبب آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے بڑھنے والی مہنگائی اور بے روزگاری کی لہر کو قرار دیا گیا تھا۔ سابق حکومت کی کارکردگی سے ان کے اپنے ووٹر بھی مایوس ہونے لگے تھے اور بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میں اس کے اشارے بھی ملنے شروع ہوگئے تھے۔ اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد نے دعویٰ کیا تھا کہ ہمارے تجربہ کار معاشی ماہرین آئی ایم ایف سے رعایتیں حاصل کرلیں گے۔ موجودہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو معاشی جادوگر کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ ان کا آئی ایم ایف سے مذاکرات کا تجربہ ہے، لیکن عملی صورت یہ نظر آرہی ہے کہ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کے باوجود اس کے انداز میں کوئی نرمی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس مرتبہ نیا اشارہ یہ مل رہا ہے کہ پوری پارلیمان حکومت اور حزب اختلاف سمیت ایک قرارداد منظور کرکے آئی ایم ایف کے سامنے اپنی اطاعت اور بندگی کا اعلان کرے اور اس کے لیے ایک متفقہ منی بجٹ منظور کیا جائے۔ ماحول یہ بنادیا گیا ہے کہ سارے مسائل کا حل آئی ایم ایف ہے، کیوں کہ زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہوجانے کی وجہ سے تجارت و صنعت بند ہونے اور معمولات زندگی متاثر ہونے بلکہ انارکی پیدا ہوجانے کا خدشہ ہوگیا ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف کے خلاف کوئی آواز بھی بلند نہیں ہورہی ہے۔ گویا کسی میثاق معیشت کے نام پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے کہ آئی ایم ایف کی سخت اور کڑی شرائط اقتصادی اور سیاسی غلامی کی دستاویز نہیں بلکہ تباہ شدہ معیشت کا علاج ہے۔ آئی ایم ایف کے نمائندے نے اعلان کردیا ہے کہ وہ پہلے براہ راست دیکھیں گے کہ احکامات پر عمل ہورہا ہے یا نہیں، اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ مالی اصلاحات کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں کا خیال تھا کہ وہ سیلاب کی تباہ کاری اور اس کے نقصانات کی دہائی دے کر کچھ نرمی حاصل کرلیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ یہاں تک کہ آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جیسے پاکستان کے دوستوں نے بھی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ سب یہ بات دیکھ رہے ہیں کہ مہنگائی اور بیروزگاری کا طوفان کتنا تباہ کن ہوچکا ہے۔ ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود شہریوں کی عظیم اکثریت فاقہ کشی کا شکار ہوچکی ہے۔ معیشت کے تمام سوتوں اور ذرائع پر عالمی قوتوں اور ان کے نمائندوں کا کنٹرول تاہم ہوچکا ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط کی بحالی صرف اتنا ریلیف دے گی کہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ جائے لیکن کب تک؟ یہ تباہی صرف ایک ارب ڈالر کے لیے ہے، جو صرف 6 ارب ڈالر کے قرضے کے پروگرام کی ایک قسط ہے۔