کرپشن اور بدعنوانی کا سدباب کیسے؟

648

پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نیب سے کہاہے کہ وہ خیبر پختون خوا کے سابق وزرا کے بارے میں تحقیقات کرے کہ کئی سابق وزرا راتوں رات ارب پتی کیسے بن گئے، نیب خیبر پختون خوا کے افسران اور ڈائریکٹر جنرلوں پر بھی رشوت کا الزام سامنے آیا ہے، جو انتہائی افسوسناک ہے۔ چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نے خیبر پختون خوا میں کرپشن کے کیسوں کی تحقیقات میں سست روی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بی آر ٹی اور بلین ٹری، مالم جبہ کیسوں کی تحقیقات جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے، پبلک اکائونٹس کمیٹی نے خیبر پختون خوا میں کئی سرکاری اداروں میں بدعنوانی اور بے ضابطگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیب کو متوجہ کیا ہے۔ بدعنوانی کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ بھی آئی ہے جس کے مطابق 2022ء میں 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 140 ہے۔ 2020ء میں اس درجہ بندی میں 124 ویں 2019ء میں 120 ویں اور 2018ء میں 117 ویں نمبر پر تھا۔ اس رپورٹ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن، بدعنوانی اور ناجائز دولت کے حصول کی دوڑ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اہل پاکستان کے لیے یہ کوئی انکشاف نہیں ہے، رشوت اور کرپشن اور بدعنوانی سے کوئی ادارہ پاک نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری اداروں میں اپنا جائز کام کرنے کی بھی رشوت لی جاتی ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے ہمارے تمام ادارے تباہ ہوچکے ہیں، لیکن اس کے خلاف نمائشی آواز بلند کرنے کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا۔ بلکہ رشوت کے الزامات صرف اپنے مخالفین کو زک پہنچانے کے لیے عائد کیے جاتے ہیں، سابق وزیراعظم عمران خان جو کرپشن کے خاتمے کے دعوے پر حکومت میں آئے اور سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ بنے ان کے چار سالہ دور میں بھی اس سلسلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ان کی حکومت بر طرف کرنے کے بعد تو موجودہ حکومت نے کرپشن کے خلاف کام کرنے والے ادارے نیب ہی کے پرکاٹ دیے اور اربوں ڈالروں کے بدعنوانی کے مقدمات ختم کردیے گئے، اسی کرپشن اور بدعنوانی نے آج وطن عزیز کو عالمی مالیاتی اداروں کا غلام بنادیا ہے اور عام آدمی کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔