جھوٹی حکومت کا کون اعتبار کرے گا؟

607

ایسی جھوٹی حکومت کا کون اعتبار کرے گا۔ جو چند گھنٹوں پہلے تک اس بات کا اعلان کرتی رہے کہ ملک میں پٹرول کی کوئی قلت نہیں ہے، اور پٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی جارہی ہیں، اور چند گھنٹوں کے بعد پٹرول کی قیمت میں ایک دو روپے نہیں یکمشت 35 روپے کا اضافہ کردے۔ ایک بے اعتبار وزیر خزانہ، جو ڈھٹائی سے اپنی نا اہلی، اور غلطیوں کا بوجھ عوام پر لاد رہا ہے، جو حکومت میں صرف اپنے مقدمات ختم کرانے، اور اپنی دولت کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے، اور عوام کو اللہ سے دعا کرنے کی تبلیغ کرتا ہے۔ مہنگائی کا یہ بم عوام پر کیا قیامت ڈھائے گا، اس کا اندازہ تو ان غربت کے ماروں کو ہورہا ہے، جو ایک روٹی خریدنے کی سکت سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔ بسوں اور عام ٹرانسپورٹ میں لوگ کس طرح کرایہ کا بوجھ برداشت کرتے ہیں، اس کا اندازہ ان پھٹی ہوئی جیبوں سے لگا سکتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں مڑے تڑے چند نوٹ ہوتے ہیں، اور وہ کرائے کے پیسے نہ ہونے پر کنڈیکٹر کی منتیں کر رہے ہوتے ہیں، مہنگائی نے لوگوں کو عزت نفس سے بھی محروم کردیا ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں۔ رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن، اب یہ دن سب کے سامنے ہے، لیکن قرض کی مے پینے والوں کے منہ، جو حرام لگا ہوا ہے، وہ اسے چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہیں، اقتصادی حوالے سے پاکستان سنگین ترین بحران میں مبتلا ہونے کے باوجود ہماری اشرافیہ اپنے رنگ ڈھنگ بدلنے پر تیار نہیں، سب سے زیادہ لوٹ مار تو سیاست دانوں نے مچائی ہوئی ہے، ایک فوج، ظفر موج ہے، جو عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہے، کوئی پوچھنے والا ہے کہ یہ 76 وزراء، مشیروں، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی پر مشتمل فوج کس کام کی ہے، یہ ملک کے کون سے مسائل حل کر رہے ہیں، کون سی عوامی خدمت کر رہے ہیں، کون کس کے کوٹے پر ہے، اور کیوں ہے؟ یہ سیاست دان جو حکومت کرنا، وزارت میں رہنا، مشیروں کے اختیارات اور پرٹوکول لینا اپنا حق سمجھتے ہیں، ہر ماہ 380 ملین روپے ان کا خرچہ یہ غریب قوم برداشت کر رہی ہے۔ اگر ملک کی معیشت تباہ حال ہے، قرض بڑھ گیا ہے، تو ان مسٹنڈوں کو کیوں پالا پوسا جا رہا ہے، کیوں اتنی بڑی کابینہ اور مشیروں کو رکھا ہوا ہے، کیوں ان کا وظیفہ باندھا ہوا ہے۔
1988 میں ہمارے ماہر اقتصادیات اس وقت کے وزیر خزانہ نے بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے ایک حل یہ نکالا کہ پاکستان کے بینکوں میں فارن اکائونٹ میں رکھے ڈالروں پر ڈاکا ڈالا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک سرمایہ داروں کا اعتماد بحال نہیں ہوا، اور اب وہ اپنے ڈالر بینکوں میں نہیں رکھتے، ڈالر کی تجارت، ایک نفع بخش کاروبار بن گیا، اور سب اس کاروبار سے دولت سمیٹنے میں رات دن مصروف ہیں۔ عجب سے بات ہے ہمارے پاس اب کوئی ماہر اقتصادیات ہی نہیں ہے، سرتاج عزیز، اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل، حفیظ پاشا، ڈاکٹرحفیظ شیخ، اسد عمر، ان ہی کو آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں، ان میں سے چند ایسے ہیں، جو ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اور امریکا کے پسندیدہ ہیں، جو ان کے مفاد کی پالیسیاں بناتے ہیں، حکومتیں، ان ہی کو وزارت خزانہ سونپنے پر مجبور ہوتی ہیں، یہ عوام کا تیل نچوڑ، ٹیکس لگانے، قیمت بڑھانے، گیس اور تیل کے نرخ بڑھانے، عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کے منصوبہ ساز ہوتے ہیں، عمران خان سے عوام نے بہت امیدیں وابستہ کیں تھیں، اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا کرتے تھے کہ وہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کے بجائے وہ ’’خودکشی‘‘ کو ترجیح دیں گے۔ لیکن انہوں نے خودکشی نہیں کی، لیکن عوام کو خودکشی پر مجبور کر دیا۔ اسد عمر کو وزارت خزانہ کے منصب سے ہٹا کر آئی ایم ایف کے لاڈلے ٹیکنوکریٹ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو لانا پڑا، ڈاکٹر حفیظ شیخ نے منصب سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے معاہدے پر دستخط کردیے۔ تمام کڑی شرائط منظور کرلی گئی۔ عمران نے ایک ظلم یہ کیا کہ ملک کی معیشت ایک بینکر کے ہاتھ سونپ دی۔ شوکت ترین اپنے وقت کے ناکام وزیر خزانہ جو آئی ایم ایف کو سمجھ ہی نہ پائے، ہمارے سیاست دانوں کے پاس کوئی ڈھنگ کا ماہر معیشت بھی نہیں ہے۔ لیکن ہماری معیشت کی تباہی میں ان غیر ملکی قرضوں کا ہاتھ ہے، جو مختلف ادوار میں حکومتیں اپنے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے لیتی رہی ہیں۔ عالمی اداروں سے ملنے والی امداد میں حتمی فیصلہ سازی امریکا ہی کی ہوتی ہے۔ خارجہ امور کی بابت اس کی ترجیحات آئی ایم ایف کے رویے میں نرمی یا سختی کا حقیقی سبب ہوتی ہیں۔ انہیں جمہوری حکومتیں راس نہیں آتیں۔ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی فیصلہ سازی کو دیکھنا ہو تو جنرل مشرف کے دور کو دیکھ لیں، ایک منتخب حکومت کا تختہ اْلٹ کر اکتوبر 1999ء میں اقتدار سنبھالا اور امریکا کو وہ کچھ دیا جس کا وہ عرصہ سے متمنی رہا تھا۔
ہماری اقتصادی مشکلات کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہماری اشرافیہ اس ڈوبتی کشتی سے بھی اپنا حصہ کشید کر رہی ہے، ہم نے اپنی تمام خرابیوں کو کرپشن سے جوڑ دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ایک قوم کی طرح کفایت شعاری کو اختیار ہی نہیں کیا ہے۔ اگر ایک گھر مشکلات کا شکار ہو تو گھر کے سب افراد کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ پاکستان ڈوب رہا ہے، تو ہماری اشرافیہ کو بھی اپنی عیاشی ختم کرنی چاہیے۔ سول، فوجی یا عدالتی، حکومتی اہلکاروں کو سہولت یا استحقاق نہیں ہونا چاہیے۔ اخراجات کو کم کرنے کی کوشش ایک قوم کی طرح کرنی چاہیے۔ سول اور فوجی اخراجات میں کمی لانے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ نہ سوچنا چاہیے کہ ہم کب ڈیفالٹ ہوتے ہیں، ہم اندونی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں، بس اب اس کا اعلان ہونا باقی ہے۔