بلوچستان کا جانباز بیٹا

638

شاید وہ نازک وقت اپنے جوبن پر آچکا ہے جس کے بارے میں احادیث کا مفہوم ہے کہ قرب قیامت کو حق کا راستہ اپنانا اور ایمان بچانا ایک مسلمان کے لیے ایسے ہی مشکل ہوگا جس طرح دہکتا ہوا انگارہ ہتھیلی پر رکھنا۔ جبھی تو ایک مسلم ریاست میں اسلام کے نام لیوا لوگوں کے درمیان ایک مرد مجاہد کو پابند سلاسل کر لیا گیا ہے جس کا جرم فقط اتنا ہے کہ اس نے اپنے شہر گوادر کے باسیوں کے لیے روزگار، صاف پانی اور تعلیم مانگی تھی۔ گوادر کے غریب عوام کے مسائل کا حل مانگ لیا تھا۔ سیکورٹی فورسز، انتظامیہ کی لوٹ مار، بھتا خوری اور رشوت خوروں کے خلاف آواز بلند کر لی تھی۔ اس کا مطالبہ ہے کہ سی پیک ایک قومی منصوبہ ہے جس کا فائدہ بلوچستان کی عوام کو بھی ہونا چاہیے۔ جب کہ اتنے بڑے قومی منصوبے کے بعد بھی عوام پہلے کی طرح پسماندہ حال نہ رہے لیکن یہ بھتا مافیا، منشیات و شراب مافیا، ٹرالر مافیا ہرگز نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے حق میں کوئی آواز بلند کرے۔ انہیں گوادر کی ’’حق دو تحریک‘‘ سخت گراں گزرتی ہے۔ وہ بلوچستان کو بے آباد صحرا ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہاں کے باسیوں کی زندگی میں ترقی و خوشحالی کو برداشت نہیں کر سکتے۔
بلوچستان اپنے ایک نہیں بلکہ کئی دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ کچھ عناصر پاکستان کے وجود کے اس حصے کو پاکستان سے الگ کرکے پھر اس پر اپنا تسلط جما کر اس کے معدنی ذخائر اڑانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے عوام کے درمیان تعصب کی راہ اپنانے میں بھی دریغ نہیں کر رہے۔ جب موقع ملتا ہے عوام کے درمیان نفرت کے بیج بوتے ہیں۔ انہیں بے تکی احساس کمتری میں مبتلا کر کے ملی یکجہتی سے دور کرتے ہیں۔ اور کچھ گوادر کا استیصال کر رہے ہیں۔ ان کے ٹرالر مافیا کی وجہ سے گوادر کے مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش خطرے میں پڑ چکا ہے۔ گوادر بلوچستان کی سب سے بڑی اور قدیم بستی ہے جہاں لوگوں کی اکثریت کا دارومدار ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ ماہی گیری کے علاوہ لوگوں کے پاس روزگار یا ذریعہ معاش بہت کم ہیں۔ جو جگہ بندر گاہ کے لیے دی گئی ہے وہ ماہی گیری کے لیے سب سے بہترین جگہ تھی۔ مقامی لوگوں نے تو یہ سوچ کر یہ جگہ چھوڑی کہ بندر گاہ بننے سے ان کے درمیان خوشحالی آئے گی لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ مطلبی لوگ ان سے ان کا ذریعہ معاش بھی چھین لیں گے اور ان کی روزی روٹی پر چین کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔ چین کے پاس ماہی گیری کا جدید نظام وآلات ہیں۔ ان کے فشنگ جہاز چاہے چوری چھپے سے ہی لیکن حکومتی اہلکاروں کے اجازت نامے حاصل کر کے سمندر میں پھرتے ہیں حالانکہ ان فشنگ ٹرالروں کے پاس وہ جال ہوتے ہیں جو بلوچستان حکومت کے قوانین کے مطابق غیر قانونی ہیں اور ماہرین کے مطابق ان کے کثیر استعمال سے مچھلیوں کی نسل کشی کا امکان ہے۔ پاکستانیوں کے لیے مچھلی کم یاب اور مہنگی ہو رہی ہے لیکن چین ہماری مچھلی سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ 2021ء کے شروع میں جب ایک چینی سفارت کار نے ایک پاکستانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’چین پاکستان میں ماہی گیری کی مقامی صنعت کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چینی سرمایہ کار پاکستان میں ماہی گیری کے شعبے میں سرمایہ کاری میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں‘‘۔ سفارت کار کے اس انٹرویو میں تو صرف ماہی گیری کی صنعت کو وسعت دینے اور اس شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کی بات ہوئی ہے ورنہ سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں کی بندرگاہوں پر وقتاً فوقتاً چینی فشر ٹرالر پہلے ہی سے موجود رہے۔ اس چیز نے ماہی گیروں کو سخت تشویش میں مبتلا رکھا ہے اور حالیہ برسوں میں ان کے مچھلی پکڑنے میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ سمندری حیاتیات کی نسل کشی ہوئی ہے۔ مقامی ماہی گیر بیروزگار ہوئے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ بلوچستان کی اسٹیبلشمنٹ چینیوں کے ساتھ برابر کی شریک ہے تو غلط نہ ہوگا بلکہ یہ افسر شاہی طبقہ منشیات کے اڈوں کا رکھوالا بھی بن جاتا ہے۔ یہ غریب عوام جب ہر طرف سے پس چکی ہوتی ہے تو رہی سہی کسر مقامی سردار ان پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے نکال لیتے ہیں۔
گوادر کے ان دلدوز حالات میں اپنے لوگوں کو حقوق دلوانے کے لیے درد دل رکھنے والا ایک مرد مجاہد آگے بڑھ کر کھڑا ہوتا ہے اور گوادر میں ’’حق دو تحریک‘‘ کا آغاز کر دیتا ہے۔ یہ مجاہد جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمن بلوچ صاحب ہیں۔ مظلوم عوام ’’حق دو تحریک‘‘ کے بینر تلے جمع ہونا شروع ہوگئے اور چند مہینوں میں ہی لوگوں کا یہ ایک مجمع بن گیا۔ اس تحریک کے بعد گوادر میں لوگوں نے جماعت اسلامی کا بھی خوب ساتھ دیا اور مقامی لوگوں کی یہ پسندیدہ جماعت بن گئی۔ لوگوں نے تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں پرامن احتجاج جاری رکھے۔ پرامن دھرنے دیے۔ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور ان سے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا۔ اپنے مسائل کا حل مانگا لیکن بے ایمان اور بد فطرت افسر شاہی جو نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کو اپنا حق حاصل کرنے کا شعور آئے۔ جو انہیں ہمیشہ اپنے جوتے کے نیچے مسلنا چاہتے تھے۔ اس تحریک سے ان کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے اور وہ اس تحریک کو کچلنے کے منصوبے بنانے لگے۔ آخر کار گزشتہ ماہ گوادر پولیس نے دو مہینے سے جاری ’’حق دو تحریک‘‘ کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے رات گئے کارروائی کرتے ہوئے تحریک کے سینئر رہنماؤں سمیت درجنوں کارکنان اور مظاہرین کو گرفتار کر لیا تھا لیکن اس وقت تحریک کی قیادت کرنے والے مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کو گرفتار نہ کیا۔ انہیں بعد میں 13 جنوری 2023ء کو گوادر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے احاطہ سے ڈی پی او گوادر نے عدالت کے احترام کو بلائے طاق رکھتے ہوئے اس وقت گرفتار کیا جب مولانا صاحب قانونی معاونت کے لیے وکلا کے ہمراہ موجود تھے اور عبوری ضمانت کے لیے عدالت کے روبرو پیش ہونا چاہتے تھے۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے تو باطل اور ظلم کے خلاف ڈٹ کر بلوچستان کا جانباز بیٹا اور اسلام کا سپاہی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ معزز قارئین! اب ہم لکھنے والے اور آپ پڑھنے والے مولانا ہدایت الرحمن بلوچ صاحب کی اسیری سے رہائی کے لیے تحریک چلا کر اپنی ذمے داری کتنی ادا کرتے ہیں یہ ہم پر منحصر ہے۔