خود انحصاری کہاں گئی

496

پاکستان کی حکومتیں تسلسل سے ایک ہی جانب توجہ دے رہی ہیں اور وہ غیرملکی امداد یا مالیاتی اداروں کا تعاون ہے۔ ہر حکومت کے دور میں وزیرخارجہ، وزیراعظم، آرمی چیف اور دیگر لوگ مختلف ملکوں کا دورہ کرتے ہیں پاکستان کے لیے امداد یا سرمایہ کاری کی درخواستیں کرتے ہیں کہیں سے منظوری ہو جاتی ہے کہیں سے صرف وعدہ لے کر آجاتے ہیں اور پھر کچھ عرصے میں حکومت تبدیل ہو جاتی ہے۔ پہلے والے کے کام غلط قرار پاتے ہیں اور نئے دورے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ اگر اس رویے کا جائزہ لیا جائے تو بیرون ملک مانگنے والے دوروں پر جتنے ڈالر خرچ ہو چکے ہیں وہی پاکستان میں کسی بڑے صنعتی یونٹ، کہیں اچھی اور بامعنی زرعی اسکیم یا کسی تعلیمی ادارے اور اسپتال پر لگا دیے گئے ہوتے تو ملک کو بہت کچھ مل چکا ہوتا۔ لیکن یہ لوگ جو کچھ لاتے ہیں عارضی مقاصد کے لیے عارضی بنیادوںپر لاتے ہیں سب سے بڑی چیز جس کا اب تو ذکر ہی نہیں ہوتا خودانحصاری ہے جس کی بات اب نہیں کی جاتی کیونکہ وہ بھیک، تعاون، ادھار اور بھائیوں جیسی محبت والے حکمرانوں کی باتوں میں کہیں کھو گئی ہیں۔ سابق اور موجودہ حکمران تو آئی ایم ایف سے قرض لینے کو اصل مسئلہ سمجھ رہے ہیں۔ سابق حکمران کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکمران آئی ایم ایف سے قرض نہیں لے سکیں گے اور موجودہ پورا یقین رکھتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف سے قرض حاصل کر لیں گے۔ دونوں صورتوں کا جائزہ لیںتو کیا حاصل ہوگا۔ قرض یا عوام کے لیے مشکلات اور قرض مل گیا تو بھی عوام پر مزید بوجھ ڈالا جائے گا تا کہ اس کی قسطیں ادا کی جاسکیں اور قرض نہ ملا تو بھی عوام ہی بھگتیں گے۔ کیا ان حکمرانوں میں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ مستقل قرض لے لے کر ملک کیسے چلایا جاسکتا ہے۔ اور اب تو حکمران قرض لیتے بھی ٹکڑیوں میں ہیں۔ اب وزیر خارجہ بلاول صاحب روس سے گندم اور توانائی کے شعبے میں تعاون لینے گئے ہوئے ہیں۔ ان کی اس موقع پر روسی ہم منصب سے جو گفتگو ہوئی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ پورا انداز ایسا ہی ہے کہ ہم غریب ملک ہیں ہماری امداد فرما دیں۔ بلاول زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کویوکرین تنازع کے معاشی اثرات کا سامنا ہے۔ پاک روس تعلقات دوطرفہ اور علاقائی استحکام کے لیے اہم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک زرعی ملک اور ایسا زرعی ملک جو گندم کی پیداوار میں دنیا میں چھٹا یا آٹھواں ملک رہتا ہے اس ملک کا وزیرخارجہ اور سابق وزیراعظم روس سے گندم خریدنے میں کامیابی اور ناکامی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس ملک کی توانائی کی ضرورت پاکستان میں موجود بجلی گھروں اور وسائل سے پوری کی جاسکتی ہے لیکن مانگنے کی ایسی عادت لگی ہوئی ہے کہ مانگے بغیر چارہ نہیں۔ چناں چہ وزیر خارجہ بڑا اعلان کرنے کے لیے روس گئے ہیں، واپسی میں شاید اونٹوں کے بجائے پجارو اور لینڈ کروزر کے قافلے میں ان گاڑیوں پر تھینک یو روس کی تختیاں لٹکا دی جائیں۔ یہ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ پاکستان اگر دنیا میں ساتویں یا آٹھویں نمبر پر گندم پیدا کرنے والا ملک ہے تو اس ملک میں آٹے اور گندم کے بحران کا سامنا کیوں ہے۔ اب تو یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ پارلیمنٹ میں فلورملز مالکان، شوگر ملز مالکان اور پٹرول مافیا والے بیٹھے ہیں۔ وہ اس ملک میں آٹا، چینی اور پٹرول سستا کیسے ہونے دیں گے۔ جو ملک اپنے بل پر کام کررہے ہوں وہ کبھی مشکل میں آجائیں تو ان کی مدد بھی کی جانی چاہیے اور انہیں امداد بھی دی جانی چاہیے۔ لیکن پاکستانی حکمرانوں کا جائزہ لیں تو انہوں نے ملک کو بھکاری بنادیا ہے اور کھربوں ڈالر قرض لے کر بھی پاکستان کو ترقی کے راستے پر نہیں ڈال سکے۔ بلکہ جن مدات میں یہ قرض لیا گیا ان پر بھی خرچ نہیں ہوسکا۔ معلوم نہیں کون سی بات ان پر اثر کرے گی کہ یہ لوگ پاکستان کے قدرتی وسائل، افرادی قوت اور پانی اور دریائوں سمندر وغیرہ سے فائدہ اٹھا کر ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنے پر راضی ہوجائیں۔ ان کا تو یہ حال ہے کہ اگر یہ اعلان بھی کردیں کہ ہم اب سچ کہہ رہے ہیں کہ اب ملک کو ترقی دیں گے تو بھی قوم ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک کھرب 80 ارب ڈالر لوگوں نے چھپا رکھے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی محنت کی کمائی یہ لمحوں میں اڑا دیں گے۔ ان ہی لوگوں کی نااہلی نے پاکستان کو بحران میں پھنسایا ہے۔ اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پہلے ان کو ایوانوں سے نکالا جائے پھر کوئی قدم اٹھایا جائے۔اور وہ صرف خود انحصاری ہے ۔ سعودی عرب نے بھی ہری جھنڈی دکھاتے ہوئے یہی کہا ہے کہ اب پاکستان کو بھی کچھ کرنا ہو گا ۔ اور مانگنے والوں کو یہ پسند نہیں آیا ہو گا ۔