پشاور کی مسجد میں دھماکا

382

پیر کے روز پشاور کی ایک مسجد میں دھماکا ہوگیا جو ریڈ زون میں واقع تھی۔ جو کچھ ابتدائی طور پر بیان کیا گیا ہے وہ سب پولیس نے بیان کیا ہے اور پولیس بیان کے مطابق حملہ خود کش تھا۔ حملہ آور نے پہلی صف میں کھڑے ہوکر خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے اب تک سو افراد کی شہادت اور دو سو کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔ شہدا اور زخمیوں میں پولیس اہلکار، امام مسجد اور زیادہ تر سیکورٹی اہلکار تھے، پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور ایک دو دن پہلے سے مسجد میں تھا۔ اس نے دس کلو سے زائد بارودی مواد سے خود کو اڑایا۔ اگر پولیس کی ساری باتیں تسلیم کرلی جائیں تو بھی یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ریڈ زون کی مسجد میں خودکش مواد کہاں سے آیا۔ یہ دس کلو مواد کسی نے جیب میں رکھ کر تو دیا نہیں ہو گا ۔ جیکٹ یا کچھ اور وہ کسی بھی شکل میں ہوں۔ کھیلتو نہیں کہ کوئی اُچھالتا ہوا لے گیا ہو ۔ یعنی سیکورٹی کے تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہی میں رخنہ موجود تھا۔ حسب معمول پہلے مرحلے میں ٹی ٹی پی کی جانب سے دھماکے کی ذمے داری قبول کرنے کا بیان آنا اور پھر رات گئے بیان سے منحرف ہونے کی خبر آنا۔ یہ اعترافی بیان کس ذریعے سے سامنے آیا اور تردید کہاں سے آئی۔ اخبارات نے تو یہی رپورٹ کیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے حملے کی ذمے داری قبول کرلی اور خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ لینے کا دعویٰ کیا۔ پھر اچانک تردید بھی آگئی۔ اگر دعویٰ درست تھا تو انہیں تردید کی کیا ضرورت تھی۔ یہ اعترافات اور تردید ہوتی ہی مشتبہ ہیں اور ان کا ذریعہ اگر پولیس ہو تو یقینی طور پر غلط ہونگی ۔ پولیس اور تحقیقاتی ادارے سب سے پہلے تو حملوں کو خودکش قرار دے کر قصہ پاک کردیتے ہیں اب حملہ آور زندہ نہیں تو اس سے پوچھ گچھ کا سوال نہیں اور جو اعترافی بیانات کی فیکٹریاں ہیں وہاں سے کچھ بھی جاری ہوسکتا ہے۔ ایسی خبروں کی اشاعت سے اتنے سنگین سانحات کی تفتیش کا رخ ہی بدل جاتا ہے۔ پاکستان کے دفاع کے دعویدار بتائیں کہ کیا ان لوگوں کی جانوں کی قیمت نہیں تھی۔اب جو رد عمل حکمرانوں کا ہے وہ بھی متوقع تھا کہ اس کے خلاف بڑے آپریشن کی ضرورت ہے ۔یعنی ایک بار پھر ریاست ان دیکھے دشمن کے تعاقب میں ہے ۔