گرفتاری، گالیاں، ڈالر اور ڈار

577

بدھ 25جنوری کی صبح سے روایتی اور سوشل میڈیا پر فواد چودھری کی گرفتاری موضوع ہے۔ انہیں لاہور سے گرفتار کرکے اسلام آباد لایا گیا جہاں چودہ دن کے جوڈیشل ریمانڈ پروہ اڈیالہ جیل بھیج دیے گئے ہیں۔ امید ہے جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں وہ ضمانت پر باہر آچکے ہوں گے۔ فواد چودھری ’’عوام‘‘ نہیں ہیں جو معمولی جرائم یا معمولی جرمانوں کی عدم ادائیگی پر برسوں جیل میں سڑتے رہیں۔ اس ملک میںجن کے ہاتھوں میں اختیارات ہیں، جو جماعت قانون تشکیل دیتی ہے پھر انہیں عوام کے نام سے نافذ کرتی ہے وہ ایوان اقتدار کے اندر ہویا باہراس بات کا لازمی اہتمام کرتی ہے کہ انصاف یک طرفہ ہو اور وہ خود اس کی زد میں نہ آئیں۔ یہ غریب ہیں جنہیں یہ نظام روٹی چرانے سے بھی منع کرتا ہے اور بھیک مانگنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ تمام قانونی ضابطوں اور سیاسی اقدامات کی اس جماعت کے لیے کوئی حیثیت نہیں جو جب چاہتی ہے قوانین کی اہمیت کو کم کردیتی ہے اور جب چا ہتی ہے اپنے مفاد میں قوانین کے درست نفاذ کو روک دیتی ہے۔ قانون کے مقابل اس جماعت کے تحقیرانہ رویے کی مثال تحریک انصاف کے رہنما فرح حبیب ہیں جنہوں نے لاہور ٹول پلازہ پر فواد چودھری کو لے جانے والی سیکورٹی اداروں کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی جہاں ان کی اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ کیا کسی بھی ملک میں یوں سیکورٹی اداروں کے مقابل آیا جاسکتا ہے یا اس کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟
عمران خان نے اپنی سیاسی ہنر مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ فواد چودھری کو اس بنا پر گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ ’’الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک منشی کی سی ہوگئی ہے‘‘ لیکن اگر ایف آئی آر کے مندرجات پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ مقدمے کا اندراج اور گرفتاری الیکشن کمیشن پر اعتراض پر نہیں بلکہ Hate speech کی وجہ سے عمل میں آئی ہے۔ فواد چودھری نے کہا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن، اس کے ارکان، ان کے خاندانوں کو اور یہ جو لوگ ہیں ان کو وارن کرتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ ہوا تو یہ زیادتیوں کا سلسلہ آپ کو واپس پے کرنا پڑے گا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’’چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان اور ان کے خاندانوں کو ڈرایا اور دھمکایا گیا ہے جس سے الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے خاندانوں کی زندگی کے لیے ایک مستقل خطرہ پیدا ہو گیا ہے‘‘۔ اس انٹرویو میں فواد چودھری نے اسی جرم کا ارتکاب کیا ہے جو عمران خان نے خاتون جج کو دھمکیاں دے کر کیا تھا۔
فواد چودھری کی گرفتاری اس بات کی علامت ہے کہ اپنی پناہ گا ہوں کو خود ہی تحلیل کرنے کی عمران خان کی حماقت کے بعد اب تحریک انصاف کے لیے بلا ضرورت بڑھک بازی کی گنجائش نہیں۔ یہ وہ پیغام تھا جسے درست طور پر سمجھ لیا گیا لہٰذا عمران خان کی پریس کانفرنس ان روایتی بڑھکوں سے خالی تھی جو ان کی گفتار کے متوازی چلتی ہیں۔ نہ سری لنکا بنانے کی دھمکی، نہ ملک کے ہاتھ سے نکل جانے کا انتباہ، نہ ڈیفالٹ کی خواہش اور نہ کسی نئی کال کا عزم۔ نئی کال نہ دینے کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی شان تغافل ہے پچھلے دو دنوں میں دی گئی تین بار کال میں چند سو ’’عوام‘‘ سے زیادہ افراد کی توجہ ہی حاصل نہیں کرپائی۔ پی ٹی آئی کے اسٹریٹ پاور کے غبارے میں جو ہوا بھرتے تھے انہیں میر جعفر اور میر صادق پکارا جائے گا تو یہ نتیجہ تو بہرحال نکلنا تھا۔
نو دریافت شدہ بزعم خود نیلسن منڈیلا کی گرفتاری کا حیرتناک پہلو پی ٹی آئی کے پرستاروں اور محبان فواد چودھری کا وہ رویہ تھا جس میں کسی کو ان سے ہمدردی نہیں۔ یہ فواد چودھری کے اس سلوک کا ردعمل تھا جو نہ دشمنوں کو چھوڑتا تھا اور نہ دوستوں کو۔ اگر وہ دشمنوں کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے تھے تو دوستوں کی بھد اڑانے میں بھی کسر نہ چھوڑتے تھے۔ کسی کا بھی دوست نہ ہونے کی شاید یہی وہ قدر مشترک ہے جس نے انہیں عمران خان کا سب سے قیمتی پرچارک بنادیا۔ اسی لیے پنجاب کے نئے سیٹ اپ میں جب عمران خان کے حامیوں کا مکو ٹھپنے کا ارادہ کیا گیا تو سب سے پہلے ان کا انتخاب کیا گیا۔
چودھری پرویزالٰہی نے فواد چودھری کی گرفتاری کا جس طرح مضحکہ اڑایا وہ عمران خان اور ان کی ضرورت اور خودغرضی کے گٹھ بندھن کے باوجود دل نہ ملنے کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ پرویزالٰہی سیلاب کا وہ سانپ ہیں جو اپنی سیاسی بقا کے لیے عمران خان کے نزدیک تو آگئے ہیں لیکن پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا زہر کسی بھی وقت ان کے نوکیلے دانتوں سے نکل کر عمران خان کے رگ وپے میں سرایت کرسکتا ہے۔ لیک آڈیو میں پرویزالٰہی نے فواد چودھری کی ماں بہن کو جن القاب سے نوازا ہے وہ وہی زبان ہے جو فواد چودھری اپنے مخالفین کے لیے روا رکھتے ہیں اور خود عمران خان بھی۔ افسوس ہوتا ہے کس فکرو نظر کے لوگ ہم پر مسلط ہیں۔ عمران خان اور ان کے پارٹی رہنمائوں کے باب میں یہ غم اس لیے زیادہ ہوجاتا ہے کہ گالم گلوچ اور مغلظات کے عادی یہ وہ لوگ ہیں جو ریاست مدینہ جیسی مقدس اصطلاح کے نام پر چار سال ہم پر حکومت کرتے رہے اور آئندہ بھی حکومت کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ نہ جانے لوگ کس طرح اپنی خواتین کو عمران خان کے جلسوں میں بھیج دیتے ہیں۔ پلے بوائے کسی فرد کا محض کردار ہی نہیں ان خوفناک تصورات کا مجموعہ بھی ہے جس میں عورت کی کوئی عزت نہیں، جن کی گالیوں میں بھی صرف خواتین کے رشتوںکو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ماحول میں ہورہا ہے جب گیپ ہٹنے کے بعد ڈالر اوپن مارکیٹ میں 262 اور انٹر بینک میں 255 روپے ریکارڈ مہنگا ہوچکا ہے۔ ملک کے مستقبل کے حوالے سے ہر شخص پریشان ہے۔ کل کیا ہوگا۔ مہنگائی کے طوفانوں کی آمد سے ہر دل دہلا ہوا ہے۔ روانی میں شاید ہم کچھ غلط لکھ گئے۔ ہر شخص اور ہر فرد اور ہر دل نہیں صرف غریب عوام پریشان ہیں جن کی ایک وقت کی روٹی بھی چھینی جارہی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی اللہ کے ذمے ہے۔ کاش ہمارے حکمرانوں نے واقعتا ایسا ہی سوچا ہوتا۔ یہ محض ایک بیان ہے یا پھر ’’جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا‘‘ جیسی کیفیت۔ کب ہم نے اس ملک کی ترقی کے باب میں اللہ سبحانہٗ تعالیٰ اور اس کے نظام کو بروئے کار لانے کی ضرورت کو اہمیت دی؟۔ ہم پہلے بھی بحرانوں کے حل کے لیے آئی ایم ایف کو مداوا سمجھتے رہے ہیں اور آج بھی ایسا ہی کررہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشی ماہرین کا اصرار ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے کسی بھی قیمت پر آئی ایم ایف کا پیکیج حاصل کرنا چاہیے۔ ریاستی اداروں کی نجکاری، مزید غیر ملکی سودی قرضے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ڈالر کی آمد میں اضافے پر زور دیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے قیام سے لے کر آج تک ہم اس کے علاوہ کیا کررہے ہیں؟ ان اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی اور غیر ملکی قرضوں میں اضافے کے سوا ہمیں کیا ملا سوائے اس کے کہ اب ہم سود کی قسطیں ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے اور اس کے لیے بھی سود پر مزید قرضے لے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن آئندہ ایک دو روز میں پاکستان آیا ہی چاہتا ہے۔ قسط کی رقم بھی ہمیں مل جائے گی۔ ہم ڈیفالٹ سے بھی بچ جائیں گے لیکن محض چند مہینوں اور برسوں کے بعد پھر ہم اسی شیطانی چکر میں پھنسے ہوں گے۔ ہمارے پاس پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے خلافت راشدہ کے سیاسی اور معاشی نظام کے سوا کوئی متبادل نہیں جس دن ہم نے اپنی معاشی اور ہر قسم کی ترقی اللہ کے نظام کے سپرد کردی وہی دن ہماری فلاح اور ترقی کا دن ہوگا۔ اس کے علاوہ سب فریب، سب جھوٹ، فریب وہم وگمان