دوست ممالک یا آئی ایم ایف2

504

قرضوں کی معیشت والے ممالک کی کیفیت بالکل وہی ہوتی ہے جیسی شوگر کے مریض کی ہوتی ہے کہ اس کے جسم میں اگر شوگر کم ہوجائے تو گر کر بے ہوش ہوجاتا ہے یا یوں سمجھ لیں کے جسمانی طور پر ڈیفالٹ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے شوگر کا علاج کرنے والے اسپتال اپنے مریضوں کو جیب میں رکھنے کے لیے ایک شکر کی چھوٹی تھیلی دیتے ہیں جس میں کچھ شکر ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس میں ایک کارڈ ہوتا ہے جس پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ شوگر کا مریض ہے کہیں پر بے ہوش ہوکر گر پڑے تو اسے تھوڑی سی شکر چٹادیں اسی طرح اگر شوگر کے مریض کی شوگر زیادہ ہو جائے تو تب بھی اس کی حالت خراب ہونے لگتی ہے اور وہ فوراً ڈاکٹر کے پاس بھاگتا ہے۔ پھر ایک دفعہ کسی کو یہ مرض ہوجائے تو ساری زندگی اس مرض سے پیچھا نہیں چھوٹتا بس وہ شوگر کو نارمل رکھنے کے لیے دوائیں یا انسولین لیتا ہے پھر شوگر کا مریض اگر پرہیز نہ کرے اور دوائوں کا بھی خیال نہ رکھے تو یہ مرض کئی جان لیوا عارضے کا سبب بھی بن جاتا ہے اگر شوگر کی زیادتی دل پر اثر کرے تو ہارٹ اٹیک کا خطرہ رہتا ہے اگر دماغ پر اثر ڈالے تو برین ہیمرج ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، اگر شوگر کے مریض کو پیر میں کوئی چوٹ لگ جائے تو گینگرین ہوجاتا ہے جس میں زخم بڑھتے بڑھتے پیر کاٹنے کی نوبت آجاتی ہے اگر یہ آنکھوں پر اثر ڈالے تو آدمی نابینا ہوجاتا ہے ایک جاننے والے تھے وہ شوگر کی وجہ سے نابینا ہو گئے تھے بہت علاج ہوا ان کے دفتر نے انہیں باہر بھی بھیجا لیکن ان کی بینائی واپس نہیں آئی پھر کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
یہ مثال اس لیے دی گئی ہے کہ مملکت پاکستان پر قرض اس شوگر کے مرض کی طرح ہے کہ اگر ملک پر قرض بڑھتا چلا جائے تو اور اس ملک کے برسر اقتدار لوگ دوا اور پرہیز کا خیال نہ رکھیں مثلاً یہ کہ اپنی عیاشی اور اللے تللے چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوں تو پھر ملک مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی ابتری سے دوچار ہونے لگتا ہے پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اگر بر وقت قرض نہ ملے تو یوں سمجھ لیں کہ اس ملک کی شوگر کم ہو گئی اور وہ کسی وقت ڈیفالٹ ہو سکتا ہے اس وقت پاکستان کی یہی کیفیت ہے، ہمارے حکمران آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے بہت منت سماجت کررہے ہیں لیکن آئی ایم ایف بین الاقوامی سود خور مہاجن بنا بیٹھا ہے اور اس نے ایسی کڑی شرائط رکھ دی ہیں کہ جس سے حکومت پاکستان بہت پریشان ہے اور ڈیڑھ سو ارب روپے کا منی بجٹ لانے کی بات ہورہی ہے جس میں ملک میں مہنگائی کا سیلاب یا طوفان نہیں بلکہ مہنگائی کا سونامی کا خطرہ شدت اختیار کرگیا ہے، پٹرول پر پچاس روپے فی لیٹر، گیس پر 74فی صد کا اضافہ خوردنی تیل میں بے تحاشا اضافہ، پھر جب ملک میں پٹرول کی مصنوعات میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ اور اشیاء کے نرخوں پر اثر ڈالتا ہے، کراچی کی بندرگاہ پر چھے ہزار کنٹینرز کھڑے ہیں، درآمد کنندگان کی ایل سی نہیں کھل رہی ہیں بہت سی اشیاء کے تو خراب ہونے کا اندیشہ ہے اسی طرح بیش تر فیکٹریوں میں خام مال نہ ہونے کی وجہ سے ان کے آرڈر کینسل ہو رہے ہیں کئی لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
اس ہولناک صورتحال میں ہمارے دوست ممالک کا رویہ بھی آئی ایم ایف کی طرح ہو گیا ہے ایک ہفتے قبل ایک سعودی وزیر محمد الجدعان کا جو بیان آیا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے ہمارے دوست
ممالک میں جو آزمائش کے وقت ہماری مدد کرتے ہیں ان میں سعودی عرب، ابو ظبی، چین اور ترکی شامل ہیں۔ سعودی عرب نے دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ تین ارب کے ریزرو فنڈ کو پانچ ارب کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے اسی طرح چین نے بھی مدد کا وعدہ کیا ہوا ہے پاکستانی معیشت اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے اسے فوری جان بچانے والی دوا کی ضرورت ہے امید تھی کہ ان دوست ممالک سے فوری کچھ پیسے آجائیں گے زر مبادلہ کے ذخائر میں کچھ اضافہ ہو جائے گا روپیہ سنبھل جائے گا ڈالر کے ریٹ کم ہو جائیں گے ایل سیز کھلنا شروع ہوجائیں گی دم گھٹتی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی کچھ سانسیں بحال ہو جائیں گی لیکن ان ممالک کی زبانی ہمدردی اپنی جگہ اصل مسئلہ تو بھوکے کا بر وقت پیٹ بھرنا ہے یہ بات سننے میں آرہی ہے کہ یہ دوست ممالک اپنے وعدے پر قائم ہیں لیکن یہ اسی وقت مدد کریں گے جب آئی ایم ایف آپ کو قرض کی قسط دے دے گا۔ پاکستان کی کوشش تھی کہ اپنے دوست ممالک سے مالی تعاون (قرض کی شکل میں) لے کر ملکی معیشت کو کچھ بہتر کرلیں اور پھر اس کے بعد آئی ایم ایف سے آسان شرائط پر اگلی قرض کی قسط حاصل کرلیں لیکن اسحاق ڈار کی سرتوڑ کوشش کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ اسی سے جڑا ہوا یہ سوال بھی ہے کہ ہمارے دوست ممالک نے ایسا سرد مہری والا رویہ کیوں اختیار کیا ہے ممکن ہے ان پر آئی ایم ایف کا دبائو ہو دوسرے الفاظ آپ یہ سمجھ لیں کے امریکا کا دبائو ہو اس لیے کہ بعض حوالوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف امریکا کا ذیلی ادارہ ہے اسی لیے پاکستان نے بھی امریکا سے اپیل کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف پر اپنے اثر رسوخ استعمال کرکے پاکستان کو آسان شرائط پر قرض کی قسط دلائیں لیکن یہ بالکل وہی بات ہوئی کہ ہم اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ہم وینٹی لیٹر پر سانسیں لے رہے ہیں۔ ہر طرف سے ناکامی کے بعد اب مجبوراً پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط ماننے پر تیار ہوگیا ہے لیکن یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا واقعی دوست ممالک امریکا یا آئی ایم ایف کے دبائو میں آگئے شاید یہ ایک کمزور معذرت Lame Excuse ہے میرے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ممالک ہمارے حکمرانوں کے لچھن کو بڑی باریک بینی سے دیکھتے ہیں 76افراد پر مشتمل کابینہ، ہمارے وزیر خارجہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ باہر ہی رہتے ہیں کبھی کبھی وہ پاکستان کا دورہ بھی کرلیتے ہیں وزیر اعظم جب باہر جاتے ہیں تو بڑے جہازی سائز کا وفد لے کر جاتے ہیں ہم پانچ کروڑ کی قیمت والی مرسڈیز کاریں 160کی تعداد میں باہر سے منگوا رہے ہیں۔ ریلوے کے لیے ڈبے لینے چین جاتے ہیں تو ستر افراد کا وفد لے کر جاتے ہیں پھر کرائے کے علاوہ ان کے ٹی اے ڈی اے بھی دیے جاتے ہیں اور جو ڈبے پاکستان آتے ہیں اس میں بھی خامی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ریلوے کے ملازمین صرف سیر سپاٹے کرنے جاتے ہیں۔
اب یہ خبریں آرہی ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کم کی جارہی ہیں یہ چھوٹے گریڈ کے ملازمین کے ساتھ زیادتی ہوگی گریڈ 20.21.22 کے سرکاری ملازمین کو ملنے والی مراعات پر نظر ثانی کی جائے دیگر سرکاری اخراجات کم کیے جائیں بیرونی دوروں پر پابندی عائد کی جائے اسی طرح کے اور بچت کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمارے سیاستدان اپنے اختلافات کو ختم کرکے ملک بچانے کی کوشش کریں ملک رہے گا تو ہم سب کی سیاست بھی باقی رہے گی۔