Motivational Personality

711

جب میں پرائمری اسکول میں تھا تو اس وقت اور زندگی میں بار بار میرے والد صاحب ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ یہ واقعہ 1950ء کے بعد کا ہے۔ والد صاحب نے بتایا کہ ملیر 15 کے قریب سے ایک بس ایمپریس مارکیٹ کے لیے چلتی تھی۔ والد صاحب بتاتے تھے کہ صدر ہی مرکزی مارکیٹ تھی۔ ہماری رہائش ائرپورٹ کے علاقے میں تھی۔ والد صاحب اکثر مہینے کا سودا ایمپریس مارکیٹ سے لاتے تھے۔ یہ واحد بس تھی جو صبح جاتی اور شام کو واپس آتی تھی۔ اس بس میں ایک بزرگ منجن بیچتے تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ یہ منجن استعمال کرنے سے دانت محفوظ ہوتے ہیں، دلیل کے طور پر وہ اپنا منہ کھول کر دانت دکھاتے۔ وہ بتاتے کہ میری عمر 75 سال ہے، ہمارے دانت ٹھیک ہیں اور میں اپنا بنایا ہوا یہ منجن دانت صاف کرنے کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ ابا بتاتے کہ پہلے 2 دن ہی میں ان کا سارا منجن بک جاتا وہ مہینہ بھر بناتے اور 2 دن میں سارا اسٹاک ختم ہوجاتا۔ والد صاحب فرماتے کہ جو کام کرو، جو چیز دوسروں کو بتائو اگر تمہارا عمل اس کے جیسا ہوگا تو لوگ فوراً اس پر مثبت ردعمل دیں گے۔ یہی Motivation ہے۔ لیکن Motivational Speaker نام کی جو چیز معاشرے میں اب میں سن رہا ہوں اس کا عمل کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ برصغیر میں سب سے بڑے Motivation دینے والے خواجہ معین الدین چشتیؒ ہیں انہوں نے اپنے عمل سے یہ جذبہ پیدا کیا کہ دوسروں کی مدد اولین کام ہے ہر ایک کو دینا ہے معاشرے میں لوگوں کی زندگیوں میں سکون چین لانے کے لیے اتنا دینا ہے کہ لینے والا ہی حیران رہ جائے۔ دنیا کے سب سے زیادہ Motivation دینے والے نبی اکرمؐ ہیں۔ آپؐ نے ایک فرد کو اتنی بکریاں دیں کہ وہ اس ریوڑ کو سنبھال بھی نہیں پارہا تھا۔ اس نے لوگوں میں یہ کہنا شروع کیا ’’لوگو محمدؐ سے مانگو وہ تو بے حساب دیتے ہیں‘‘۔
یہ جذبہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیل گیا۔ یہی جذبہ جب معین الدین چشتیؒ میں آیا تو اتنا دینے والے بنے کہ ان کا نام ہی ’’غریب نواز‘‘ پڑ گیا۔ آج برصغیر پاک و ہند میں بہت سے مثبت کام ان کے نام ہی سے ہورہے ہیں۔ ان کے مریدین میں جذبے والے پیدا ہوئے اور اسی جذبہ (Motivation) کا اثر موجودہ دور میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ غریب نواز کا اپنا لنگر 700 سال سے جاری ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی دیگر جس میں 4800 کلو کھانا پک سکتا ہے۔ اجمیر شریف میں ہے اور یہ لنگر مسلسل جاری ہے۔ برصغیر کے اندر سیکڑوں لنگر چشتیؒ سے متاثر ہو کر چل رہے ہیں۔ غریب نواز کے نام سے جذبہ سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں چھوٹے بڑے ادارے برصغیر میں قائم ہیں۔ چشتیہ خاندان کے بزرگ حضرت مودود کی اولاد سے ایک Motivational فرد پیدا ہوا جس نے اپنے لیٹریچر کے ساتھ عمل کرکے دکھایا اور خیر کے کام کے حوالے سے پاکستان، ہندوستان بنگلا دیش وغیرہ میں اس Motivational شخصیت کے لیٹریچر اور پھر عمل سے انسانوں کو دکھ درد سے نکالنے اور ان کی زندگی میں سکون پیدا کرنے کا کام جاری ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی کے سلسلے کے اس فرد کا نام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہے۔ مودودی صاحب نے خاندانی کام خدمت کے جذبہ سے قیام پاکستان کے موقع پر مہاجرین کی خدمت شروع کی اور ثابت کیا کہ چشتیہ خاندان صرف تصوف، لیٹریچر میں ہی نہیں عمل میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی کہ آج کے زمانے میں انسانوں کے پیدا کردہ مسائل ہوں جیسے کشمیری مہاجرین، افغان مہاجرین، شامی مہاجرین، فلسطینی مہاجرین، الخدمت ہر جگہ مدد کے لیے تیار ہے۔ یا قدرتی آزمائش زلزلہ، سیلاب، بارشیں وغیرہ ہر جگہ الخدمت اور مولانا مودودیؒ کے عمل کے جذبہ والے نوجوان ڈاکٹرز پیما اور دوسرے افراد اپنے مزاج کے مطابق انسانوں کو مشکلات اور پریشانیوں سے نکال کر آسانیاں پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کراچی میں حافظ نعیم الرحمن وہ Motivational شخصیت ہیں جو کراچی کے آفت زدہ لوگوں کو سکھ اور چین پہنچانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ برصغیر کے خواجہ معین الدین چشتی کے مشن پر گامزن اس نوجوان انجینئر حافظ نعیم کا ساتھ دے کر کراچی کے عوام کو دکھ درد سے نجات دلانا ہی خواجہ معین الدین چشتی کا Motivational پروگرام ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام جزبے والوں کے ساتھ تھا اور ہے۔ یہ رب کا وعدہ ہے۔