بلدیہ کراچی کی طاقت کا سینگ کون؟ دوسرا حصہ

562

’’پیپلز پارٹی‘‘ جس نے اتنے حیران کن نتائج حاصل کیے ہیں کہ خود پارٹی کے لوگ پریشان ہیں کہ واقعی میں اگر یہ تمام ووٹرز کسی وقت جمع ہوجائیں تو ان کا انتظام کیسے اور کس طرح کیا جائے گا کون کرے گا، ان کے کارکن کہتے پائے جارہے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو خفیہ طور پہ ووٹ ڈال گئے؟ کہ پیپلز پارٹی کو کراچی میں کسی چھوٹے موٹے جلسے کی ضرورت پڑ جاتی تو ان کو اندرون سندھ سے لوگ بلوانے پڑجاتے، اب یہ ووٹ کہاں سے پڑگئے، دوسری، ’’تحریک انصاف‘‘ کہ ان کا تو بہت نقصان ہوگیا کہ انہوں نے 2018 میں جہاں جہاں سے لاکھوں ووٹ لیے تھے، ان حلقوں نے ان کو ٹھینگا دکھا دیا اور وہ صرف 40 نشستوں پہ کھڑے ہیں تیسری ’’ایم کیو ایم‘‘ ان کا تو سب سے برا حال ہوا ہے کہ وہ تو دوڑ میں جاکر کھڑے ہی نہیں ہوئے اب ان کو کس نے اور کیوں اتحاد کرنے پہ مجبور کیا اور کس نے ان کو اس انتخاب کا بائیکاٹ کرنے پہ مجبور کیا۔ مگر اب یہ حادثہ تو ہوچکا، وقت بھی گزر چکا، ریس ہوچکی اب چاہے کوئی کتنا دوڑا اور کتنا تیز دوڑا اور کتنا وزن لے کر دوڑا، بہرحال دوڑ تو ہوئی ختم، اب وہ صرف اور صرف پروپیگنڈا مہم پہ ہی زندہ ہیں اور اسی پہ جان مار رہے ہیں، اگر ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کی موجودگی میں ووٹ کی یہ تعداد نہیں ہوتی بلکہ کئی گنا زیادہ ہوتی، تو ان کو میدان نہیں چھوڑنا چاہیے تھا کہ جس بات پہ انہوں نے بائیکاٹ کا بہانہ بنایا، وہ تو خود ان کا ہی پیدا کردہ ہے، یعنی وہ گزشتہ 32 سال سے اقتدار کے سنگھاسن پہ براجمان تھے اور پاکستان کی ہر ہر پارٹی کی بغل میں موجود رہے ہیں مگر کسی بھی قسم کے انتخابی ریفارم کی کوشش نہیں کی، اگر واقعی انتخابی حلقے اور ووٹنگ لسٹیں بہت زیادہ پریشان کن تھیں تو اس پر پچھلی عمرانی حکومت کے ساڑھے تین سال اور اب کی پارلیمانی تبدیلی میں نئی حکومت کے حصہ دار بن کر بھی کچھ نہ کیا۔
اب آتے ہیں حافظ نعیم کی پارٹی جماعت اسلامی پر، سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ جماعت نے ہارا کیا ہے، ان کا نقصان کیا ہوا ہے ان کا جا کیا رہا ہے، ان کے پاس تھا کیا کہ جس کے جانے کس افسوس ہوتا، بقول ’’شرفو خالو‘‘ یہ جماعت تو پچھلے 75 برس سے ’’ہار اور مار‘‘ برداشت کرتی چلی آرہی ہے اور ہر شکست کے اگلے دن یہ پھر میدان میں کھڑے نظر آتے ہیں، عوامی خدمت اور کام اور اسی پرانی تنخواہ پر ڈیوٹی پہ حاضر، تو اس جماعت نے تو حاصل ہی کیا ہے، اور وہ بھی بہت سارا، کم نہیں، جس طرح سے اس نے come back کیا یا واپسی کی طرف قدم بڑھایا ہے، وہ واقعی ایک قابل ستائش عمل ہے اور جماعت اسلامی ناصرف طاقت کے سینگ بن چکی ہے، بلکہ ایک تبصرہ نگار کے مطابق جماعت ایک ایسی جگہ آکھڑی ہے کہ جس کے ایک طرف کھائی اور دوسری طرف سمندر ہے اور ہر دو طرح سے جماعت پھنس چکی ہے مگر شرفو خالو کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ وہ کیل کانٹے کے کھیل میں ایک ایسی چال پر آکھڑے ہیں کہ ایک طرف کراچی کا مئیر، اور یہ نا ہوسکا تو دوسری طرف ایک طویل سیاسی اٹھان۔
تحریک انصاف اور ایم کیو ایم دراصل اسی بات کو محسوس اور کیلکولیٹ کرنے کے بعد ہی تو پریشان ہیں کہ حافظ نعیم ہر دو طرح سے کامیابی کی طرف گامزن ہے اور جو میدان ان دونوں سے چھوٹ گیا یا چھڑوا دیا گیا، یا بقول ان کے انہوں نے خود چھوڑ دیا وہ بہر حال اب ان کے ہاتھوں میں فوری طور پہ تو نہیں آسکتا جبھی تو وہ کبھی ووٹ کا ٹرن آئوٹ کم ہونا اور کبھی جماعت کو پیپلز پارٹی کی B ٹیم گرداننا، شروع کردیتے ہیں تحریک انصاف کے فردوس شمیم کا پہلا بیان کہ بغیر کسی شرط کے جماعت کی حمایت اور پھر ابھی کل جماعت کی طرف سے انتخابی بد عنوانی کا واویلہ اور اب ایک نیا بیانیہ شروع کہ پوری انتخابی مہم ملک ریاض کے پیسوں سے ہوئی ہے اب ان تمام باتوں کا جواب صرف ایک جملے سے ہی دیا جاسکتا ہے کہ: ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘، حافظ نعیم تو ملک ریاض سے بحریہ ٹائون کے پلاٹوں میں لوگوں کی پھنسی ہوئی رقمیں واپس دلوا رہا ہے اور یہ حضرت کہتے ہیں کہ ملک ریاض حافظ نعیم کی انتخابی مہم چلا رہا ہے، اب یہ بھی کہ یہ دونوں پارٹیاں پیپلز پارٹی سے اپنی ادھوری اور ناکام جنگ کو جماعت پر تھوپنا چاہتے ہیں، یا وہ جنگ جو وہ دونوں اپنی کمزوری یا نکمے پن سے لڑ ہی نہیں سکے تو وہ چاہتے ہیں کہ وہ جماعت لڑے۔ یا پھر یہ کہ سب گڑ بڑ کردو ’’نا کھیڈاں گے تے ناں کھیڈن دیاں گے‘‘ دوسری طرف پیپلز پارٹی جماعت اسلامی کے بے داغ کردار کے ماضی کو بنیاد بنا کر ہما اپنے سر پہ جمانے کی کوشش میں ہیں، اور سارا کام جماعت سے کروانا چاہتی ہے ورنہ جس طرح سے ایم کیو ایم کو 1987 سے 2018 اور 2022 میں ایوان میں ہونے والی حکومتی تبدیلی تک جتنے مواقع ملے ان میں سے اگر وہ 20 فی صد مواقع کو بھی کام میں لے آتے تو شاید اگلے پچاس برس بھی ان کو کوئی نہیں ہرا سکتا تھا مگر کیا کریں کہ ان کے تو ’’مقاصد ہی قلیل‘‘ تھے اور رہی تحریک انصاف، تو انہوں نے 2018 میں انتخاب جیتنے ہی کو اصل کامیابی سمجھا تھا اور اپنے منشور کو نافذ کرنا تو خیر کیا انہوں نے تو لوگوں کو خاطر میں ہی لانا چھوڑ دیا تھا۔
اب بات ہے پیپلز پارٹی کی، تو وہ تو ہمیشہ ہی سے سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتی ہے، مگر کون سی سیاست، جس کو وہ سیاست سمجھتی ہے اور دوسرے کچھ اور ان کو عوامی خدمت سے کوئی سروکار نہیں، بس حکومتی اثر رسوخ سے اپنے کام نکالنا تو یہ سارے عوامل مل کر عوام میں بے چینی اور کسی اور لیڈر کی طرف دیکھنے کا سبب بن چکے، اور اب تو مزید یہ کہ حافظ صاحب نے مسلم لیگ ن اور دیگر سے بھی میل ملاقاتیں کرنی شروع کردی ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعی میں سنجیدگی سے، سب کو ساتھ لیکر چلنے کی بات کررہے ہیں، اور اب اس خالی جگہ کو بہت محنت سے حافظ نعیم نے پر کیا ہے اور میرا نہیں خیال کہ حافظ نعیم کوئی اتنا بے عقل یا معصوم ہے کہ وہ ان سب کی چالوں کو نہ سمجھے اور اپنا رستہ کھوٹا کرلے، اس شخص نے تو 2018 میں ہی اپنا vision بنا لیا تھا کہ اس کو اگلے چند برسوں میں کب کیا اور کس طرح کرنا ہے اور میں ذاتی طور پہ یہ دیکھتا ہوں کہ اگر حافظ نعیم نے اپنے پتے صحیح طرح سے صحیح وقت پہ صحیح جگہ شو کیے اور اپنے اعصاب کو قابو میں رکھا اور زبان دانی کے اثر کو تادیر چلایا اور اپنی ٹیم میں قابل اعتماد و بھروسا ساتھی رکھے، تو کوئی شک نہیں کہ حافظ کا سیاسی سفر لمبا ہوسکتا ہے، اور وہ کئی مزید لینڈ مارک عبور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے آگے دیکھتے ہیں کہ عملی انتخابات کے بعد یہ اعصابی جنگ کون کس طرح جیتتا ہے۔