علم کی بات

493

۔24 جنوری کو دنیا بھر میں تعلیم کا عالمی دن منایا گیا، رواں سال اقوام متحدہ نے اِس دن کو افغان بچیوں اور خواتین کے نام سے منسوب کیا ہے۔ دسمبر 2018ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے ذریعے 24 جنوری کو تعلیم کا عالمی دن قرار دیا گیا اور پھر اگلے سال پہلی مرتبہ یہ دن منایا گیا جس کا مقصد امن اور ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کرنا تھا۔ اب اِس سال پانچویں عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغان حکومت کی توجہ افغانستان میں بسنے والی لڑکیوں کی تعلیم کی طرف دلائیں۔ اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے کا کہنا تھا کہ اِس دن کو افغانستان میں اُن تمام لڑکیوں اور خواتین کے لیے وقف کیا گیا ہے جنہیں سیکھنے، پڑھنے اور سکھانے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے، یونیسکو انسانی وقار اور تعلیم کے بنیادی حق پر اِس سنگین حملے کی مذمت کرتا ہے۔ آڈرے ازولے نے افغان خواتین کی تعلیم تک رسائی کو محدود کرنے والی پابندی کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔ اِس سے قبل بھی اقوام متحدہ نے کابل کے طالبان حکمرانوں کو پیغام دیا تھا کہ تعلیم انسانی حق کے ساتھ عوامی بھلائی اور ذمے داری ہے جس سے افغان خواتین کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔
طالبان حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ خواتین کو ملازمت اور تعلیم کے مواقع دیں گے۔ طالبان حکومت نے طلبہ و طالبات کی علٰیحدہ تعلیم اور لڑکیوں کے لیے خواتین اور معمر اساتذہ کے تقرر جیسے طریقہ کار وضع کر رکھے تھے جس کے بعد اس طرح کی پابندی سمجھ سے بالاتر ہے، اسلام بنا کسی صنفی تفریق کے ہر مسلمان کو تعلیم کا حق دیتا ہے۔ یونیسکو کے مطابق افغانستان کی یونیورسٹیوں میں خواتین کی حاضری میں دو دہائیوں میں تقریباً 20 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اِس وقت افغان حکومت کو خواتین کی تعلیم پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، طالبان کوسوچنا چاہیے کہ اِس طرح کے فیصلوں سے دنیا بھر میں کیا پیغام جائے گا، اسلام لڑکیوں کو تعلیم کے حق سے محروم نہیں کرتا بلکہ اِس کی تاکید اور اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ لگتا ہے کہ خواتین کی خواندگی کا مسئلہ صرف ترقی پزیر ممالک میں ہی پایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں خواتین میں ناخواندگی کی شرح کافی زیادہ ہے حتیٰ کہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی صورت حال حوصلہ افزاء نہیں ہے، 20 سے زائد ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی شرحِ ناخواندگی 70 فی صد سے بھی زائد ہے یعنی وہاں بھی لگ بھگ 30 فی صد خواتین ہی تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں اسکول داخل نہ ہوسکنے والے بچوں میں سے 53 فی صد لڑکیاں ہیں جبکہ ثانوی تعلیم حاصل نہ کرسکنے والے بچوں میں لڑکیوں کی تعداد بھی لگ بھگ 52فی صد ہے اور اگر خواتین سے ہٹ کر تعلیم کی شرح پر نظر ڈالی جائے تو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 24 کروڑ 40 لاکھ بچے اور نوجوان اسکول نہیں جاتے جبکہ 77 کروڑ سے زائد بالغ افراد تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ عالمی سطح پر پرائمری اور بعض اوقات مڈل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 22 کروڑ 60 لاکھ بچے سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل نہیں کرتے، اِس لیے ایسے بچوں کی تعلیم صرف بنیادی جمع تفریق اور پڑھنے لکھنے کی حد تک محدود ہوتی ہے۔ براعظم جنوبی امریکا اور یورپی ممالک میں اگرچہ شرحِ خواندگی 90 سے 100 فی صد تک ہوتی ہے تاہم بعض براعظموں میں یہ شرح50 فی صد سے بھی کم ہے اگر پاکستان میں تعلیم کے حالات پر غور کیا جائے تو اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے دو کروڑ 28 لاکھ بچے اسکول میں داخل ہی نہیں ہوتے جو مجموعی آبادی کا 44 فی صد ہے۔ پانچ سے نو سال کی عمر کے 50 لاکھ بچے جبکہ 10 سے 14 سال کے ایک کروڑ 14 لاکھ بچے رسمی تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ ملک بھر میں تقریباً ایک کروڑ سات لاکھ لڑکے اور 86 لاکھ لڑکیاں پرائمری سطح کی تعلیم کے لیے اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں جو لوئر سیکنڈری کی سطح پر پہنچ کر36 لاکھ طلبہ اور 28 لاکھ طالبات تک رہ جاتے ہیں یعنی 71 لاکھ لڑکے اور 58 لاکھ لڑکیاں پرائمری کے بعد مزید تعلیم حاصل نہیں کرتے۔
دنیا بھر میں پرائمری، سیکنڈری اور انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کو لازم گردانا جاتا ہے اور بیش تر ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ وہاں کی 90 فی صد سے زائد آبادی خواندہ ضرور ہوتی ہے۔ گزشتہ 75 سال میں پاکستان میں خواندگی کی شرح لگ بھگ 63 فی صد تک ہی پہنچ سکی ہے یعنی آج بھی ملک کی 37 فی صد آبادی ناخواندہ ہے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے 75 برس گزر گئے لیکن مضبوط نظام تعلیم کی بنیاد نہیں ڈالی جا سکی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وقت کے ساتھ ساتھ معیار تعلیم بہتر ہونے کے بجائے تنزلی کا شکار ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ ایک زمانہ تھا جب سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنا اعزاز سمجھا جاتا تھا، داخلہ ملنا انتہائی مشکل ہوتا تھا، فیس کم تھی لیکن معیار بلند تھا تاہم آہستہ آہستہ نجی شعبے کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں، اسکول اور کالج حتیٰ کہ یونیورسٹیاں بھی کاروبارکا ذریعہ بن گئیں، فیسیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں لیکن معیار تعلیم میں بہتری نہیں آ سکی۔ سرکاری اسکولوں کی حالت ویسے ہی دگرگوں ہے، عمارتیں خستہ حال ہیں، باصلاحیت اور تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی ہے، اسکول بنیادی سہولتوں سے بھی عاری ہیں، استاد کی تعیناتی کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ پرائمری تعلیم جو سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے ہمارے ملک میں اِسی کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یکساں نصاب تعلیم کے نعرے تو ضرور لگے لیکن ابھی تک عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔