ڈالر مہنگا اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط

502

پاکستان میں معیشت کی ابتری اب کوئی خبر بھی نہیں رہی تاہم ہر آنے والا دن معاشی ابتری کی نئی داستان رقم کرتا ہے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں عمران خان نواز شریف کی معاشی پالیسیوں، ڈالر کی قیمت 100 روپے تک پہنچنے، اور خسارے کو پورا کرنے کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر شدید تنقید کیا کرتے تھے اور 2018 میں عمران خان نے اقتدار میں آکر بھی نہ صرف یہی کچھ کیا بلکہ اس کی توجیہات بھی پیش کیں۔ آئی ایف ایم سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرض بھی عمران خان کی حکومت کا تحفہ ہے۔ معاشی ابتری کو دور کرنے کے لیے اپریل 2022 میں شہباز شریف ملک کو بچانے کے دعوے کے ساتھ جب مسند اقتدار پر فروکش ہوئے تو انہوں نے ملک کی معیشت کو 6 ماہ میں درست کرنے اور مہنگائی ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوے تو کیے لیکن عمل اس کے برعکس ہی رہا اب ان کے اقتدار کو 9 ماہ گزر جانے کے باوجود نہ تو مہنگائی کم ہوئی اور نہ ہوئی ڈالر نیچے آسکا۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی کڑوی گولی بھی اب حکومت نگلنے کو تیار ہے اور اس کے لیے آئی ایم ایف کی شرط پر ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب تک ڈالر کی قدر میں 34 روپے کا اضافی ہوچکا ہے اور تادم تحریر ڈالر 264 روپے پر پہنچ چکا ہے۔ اس اقدام کا لامحالہ اثر براہ راست عوام کو منتقل ہوگا۔
آئی ایم ایف کا وفد قرض کی نئی قسط کے اجراء سے قبل پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گا جس کے بعد امید ہے کہ پاکستان کو قرض کی نئی قسط جاری کردی جائے گی۔ لیکن اس سب ہنگام میں عوام براہ راست اس شدید مہنگائی کا نشانہ بنیں گے۔ ملک میں متوسط طبقے کو ختم کرکے اب ان کو بھی افلاس کے نزدیک پہنچا دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ شرمناک صورتحال کیا ہوگی کہ پاکستان جیسا زرعی ملک خود اب تک خوارک میں خود کفیل نہ ہوسکا ہے۔ یہ کسی بھی ملک کے حکمرانوں کا بدترین اور ناقابل معافی جرم ہوسکتا ہے جو ہمارے حکمرانوں نے کیا ہے کہ ہم نے صرف قرضوں کی معیشت کو پروان چڑھایا قدرتی وسائل ہونے کے باوجود ان سے استفادہ نہیں کیا۔ ہمارے ملک کی زمین سونا اگلنے والی زمین ہے لیکن بلا تخصیص ملک دشمن سول و فوجی حکمرانوں نے ملکی تقاضوں کے بر خلاف کام کیے کوئی طویل المدتی منصوبہ نہیں بنایا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی ایک خطیر زر مبادلہ گندم، دال اور دیگر اجناس کی خریداری میں صرف ہوگا۔
پاکستان کی معاشی ابتری کہ اصل وجہ ناقص پالیسی اور حکمرانوں کی عیاشیاں ہیں۔ اس وقت بھی جب عوام کو کسی مد میں کچھ ریلیف دیا جاسکتا ہے تو وہ بھی حکمرانوں کے اقدامات کے باعث نہ مل پارہا اس کی ایک مثال سابق حکومت پنجاب کی جانب سے شوگر ملز کو دی گئی رعایت ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 30 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا یہ رعایت سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی حکومت نے دی اور اس سے تمام سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہوا ہے۔معیشت کو چھے ماہ میں درست کرنے کے دعویداروں نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دے کر اپنی غیر ذمے داری اور بے حسی بھی ثابت کی، ملک میں معاشی بحران کے ساتھ ہی اب سیاسی بحران بھی پنجے گاڑے ہوئے ہے جو ملک کو مزید ابتری کی جانب دھکیل رہا ہے۔ دو صوبوں کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد اب آئینی طور پر نوے دن میں انتخابات کروانے ہیں لیکن حکومتی اقدامات سے لگتا ہے کہ حکومت اس سے پہلو تہی کررہی ہے اور انتخابات نہ ہونے کی وجہ بھی معاشی ابتری ہی ہے کیونکہ حکومت اگر اس شدید مہنگائی میں الیکشن میں جاتی ہے تو اس کی شکست یقینی ہوگی۔ اس تمام صورتحال میں ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے طویل مدتی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے لیکن شدید ترین سیاسی تناؤ میں یہ کام ممکن نظر نہیں آرہا۔ ایک طرف ملک کی سیاسی قیادت ایک دوسرے کو دیکھنے کی بھی روادار نہیں اور دوسری جانب نیب اور عدلیہ نے مل کر بیوروکریسی کو بھی غیر فعال کردیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا تاحال کردار واضح نہیں اور غیر جانبدار ہونے کے اعلانات کے بعد سے تاحال خاموشی طاری ہے۔ پاکستان کے تمام سیاسی و غیر سیاسی حکمرانوں اور طاقتوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب پاکستان کے پاس ڈیفالٹ سے بچنے کا کوئی راستہ ہے تو وہ معیشت پر قومی اتفاق رائے سے ہی ممکن نظر آتا ہے۔ معیشت پر پالیسیاں بنانے، ان کو جاری رکھنے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی جیسے فیصلے کرنا اس ملک کی شدید ترین ضرورت ہے اور یہ سب تب ہی ممکن ہوگا کہ جب تمام قیادت، اسٹیبلشمنٹ، اور عدلیہ مل کر بیٹھے اور اس پر اتفاق رائے قائم کرے۔
پاکستان کی معیشت کی بحالی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے ممکن نہیں۔ پاکستان کو اس ضمن میں اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے اپنی افرادی قوت کو کار گر بنانا ہوگا اور اس سب کے لیے تعلیم سب سے پہلی شرط ہے۔ تعلیم کے ضمن میں ہم بحیثیت قوم شدید ترین کوتاہی کرچکے ہیں۔ ہمارے نوجوان غیر تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ اب جرائم کی دنیا میں بھی داخل ہورہے ہیں اس کے تدارک کے لیے اعلیٰ تعلیم کے ساتھ فنی تعلیمی اداروں کے قیام اور ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ ہماری اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد قوت بیرون ملک جاکر بھی ملک کے زرمبادلہ کی ایک بڑی ضرورت کو پوری کرسکتی ہے۔ اس وقت بھی بیرون ملک مقیم پاکستانی 30 ارب ڈالر کا خطیر زرمبادلہ ہر سال پاکستان بھیجتے ہیں اگر اس کو بڑھا کر آئندہ پانچ سال میں 50 ارب ڈالر تک کردیا جائے تو پاکستان کو سالانہ خسارے سے نجات مل سکتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لیے مربوط منظم حکمت عملی، مشترکہ کاوشوں اور اخلاص نیت کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کیونکہ اگر ملک ہے تو سب کی سیاست بھی چلے گی ورنہ معاشی دیوالیہ ہونے کی صورت میں نہ سیاست بچے گی نہ ریاست، ایک افراد تفریح کا ماحول ہوگا اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ملک انارکی کی طرف چلاجائے گا اور پھر فیصلہ منتشر ہجوم ہر سطح پر کرے گا کیونکہ جب کسی کو دو وقت کی روٹی تو کیا دو دو دن تک کھانے کو نہیں ملے گا اس کے بچے بلک بلک کر اس کی آنکھوں کے سامنے بھوک سے تڑپ رہے ہوں تو کوئی معیشت اور مہنگائی کا فلسفہ نہیں سنے گا بلکہ انتقام کی آگ میں جل رہا ہوگا اور اس کا انتقام ملک کی اشرافیہ کے ساتھ ہوگا۔ اس لیے وقت کم ہے اور فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے اس میں کسی قسم کی تاخیر سے ناقابل ِ تلافی نقصان ہوگا۔